بہار میں ایس آئی آر (Special Investigation Report) کی کارروائیاں تیزی سے جاری ہیں۔ یہ کارروائیاں نہ صرف اپوزیشن کے سرکردہ رہنماؤں، کارکنوں اور سماجی کارکنوں کے خلاف کی جا رہی ہیں بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ پوری مشق ایک خاص سیاسی منصوبہ بندی کا حصہ ہو۔ ادھر دہلی میں انڈیا بلاک کی ہنگامی میٹنگ اس بات کا ثبوت ہے کہ اپوزیشن کو موجودہ صورتحال کی سنگینی کا مکمل ادراک ہو چکا ہے اور وہ سیاسی داؤ پیچ سے نمٹنے کے لیے سنجیدہ حکمتِ عملی بنانے پر مجبور ہو چکا ہے۔
ایس آئی آر کی کارروائیاں صرف عام مجرموں تک محدود نہیں بلکہ کئی معاملات میں حزبِ اختلاف کے نمائندوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جلسے جلوسوں میں شامل ہونے والے نوجوانوں، طلبہ، دلت و اقلیتی طبقے کے نمائندوں اور سوشل میڈیا پر حکومت پر تنقید کرنے والوں کے خلاف جس انداز میں مقدمات درج کیے جا رہے ہیں، اس سے یہ اندیشہ تقویت پاتا ہے کہ یہ کارروائیاں انتخابی سال میں اپوزیشن کو کمزور کرنے کی ایک بڑی مہم کا حصہ ہیں۔اپوزیشن پارٹیوں کو یہ خوف بھی کہ یہ سلسلہ اب رکنے والا نہیں اور بی جے پی نے الیکشن کمیشن کی مدد سے اب یہ طئے کرنے لیا ہے کہ وہ پورے ملک میں ایسے ووٹر لسٹ بنائیگی جس کے تحت اسے اکثریت حاصل ہو ۔یہ ایک ایسا داؤ ہے جس نے اپوزیشن اور خاص طور پر علاقائی پارٹیوں کے ہوش اڑا دئے ہیں ۔کیونکہ بی جے پی کو ایک بڑا نقصان علاقائی پارٹیوں کے گٹھ جوڑ سے ہی ہوتا ہے ۔جس کی سر پرستی کانگریس پارٹی کرتی ہے ۔
ایسے ماحول میں جب حزبِ اختلاف کے کارکنان اور رہنما خوف و دباؤ کا شکار ہیں، دہلی میں انڈیا بلاک کی میٹنگ نہایت اہمیت رکھتی ہے۔ اس میٹنگ میں صرف انتخابی سیٹوں کے بٹوارے یا بیانات تک بات محدود نہیں رہی بلکہ جمہوری ڈھانچے، شہری آزادیوں، اور آئینی اداروں کے استحکام پر سنجیدہ غور و فکر کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق، اس اجلاس میں مرکز اور ریاستوں میں حکومت کے ذریعہ "سیاسی انتقام” کے ماحول پر سخت ردعمل دینے پر اتفاق رائے ہوا۔
ایک طرف طاقت کا وہ چہرہ ہے جو پولیس، ایجنسیاں اور عدالتی نظام کو ہتھیار بنا کر مخالف آوازوں کو دبانا چاہتا ہے۔ دوسری طرف مزاحمت کا چہرہ ہے جو تمام تر کمزوریوں اور بکھراؤ کے باوجود جمہوریت کی بحالی کے لیے کوشاں ہے۔ دہلی کی میٹنگ میں کئی علاقائی جماعتوں نے اپنا موقف واضح کیا کہ اگر ہم متحد نہ ہوئے تو 2024 اور اس کے بعد کا بھارت صرف "راج نیتی” کا میدان نہیں، بلکہ جمہوریت کی بقا کی جنگ بن جائے گا۔
بدقسمتی سے ملک کے مرکزی دھارے کا میڈیا ان کارروائیوں کو "قانونی کاروائی” کہہ کر پیش کر رہا ہے، جبکہ زمینی حقیقت بالکل مختلف ہے۔ ایسے میں سوشل میڈیا اور عوامی شعور ہی وہ واحد طاقت ہے جو سچ کو زندہ رکھ سکتا ہے۔
بہار میں ایس آئی آر کی کارروائیاں اگر اسی شدت سے جاری رہیں اور حزبِ اختلاف کی آوازوں کو دبایا جاتا رہا، تو یہ نہ صرف ریاست بلکہ پورے ملک کی جمہوریت کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ انڈیا بلاک کی میٹنگ اس وقت کا ایک مثبت اشارہ ہے، لیکن اسے محض رسمی بیانات سے آگے بڑھ کر عوامی سطح پر ایک موثر تحریک میں تبدیل کرنا ہوگا۔لیکن قباحت یہ کہ گذشتہ گیارہ برس میں بی جے پی کی مرکزی حکومت نے لال فیتہ شاہی پر اپنی گرفت اتنی مضبوط کر لی ہے کہ ہر سرکاری ادارہ اور تمام ایجنسیاں سرکار کے اشارے پر ناچ رہی ہیں اور وہ سرکار کے حکم کو آئین کا حکم سمجھ کر اس کی بجائے آوری کو ہی اپنا فرضسمجھ لیتے ہیں ۔سب سے بڑی بات یہ ہے کہ معاشرے میں گودی میڈیا پر گرفت ہونے کی وجہ سے بھی حکومت اپنے حق میں جھوٹے پرچار کو اس قدر موثر طریقہ سے پیش کرتی ہے کہ عام لوگ کنفیوز ہو جاتے ہیں اور سرکار کے ہر قدم اور پالیسی کو دیش بھکتی اور دھرم کے حق میں سمجھ لیتے ہیں جبکہ حزب اختلاف کی ہر کارروائی انہیں ملک دشمنی اور سناتن دشمنی نظر آتی ہے ۔
جمہوریت صرف ووٹ دینے سے زندہ نہیں رہتی، بلکہ بولنے کی آزادی اور اختلاف کی گنجائش سے سانس لیتی ہے۔