بالآخر ٹرمپ نے بھارت سے انتقامی کارروائی کا آغاز کر دیا ۔
امریکہ کی جانب سے بھارت پر50 فیصد ٹیرف کا اعلان ایک اقتصادی جھٹکا ہی نہیں، بلکہ جیو پولیٹیکل پیغام بھی ہے۔ یہ اس وقت ہوا ہے جب دونوں ممالک بظاہر اسٹریٹیجک پارٹنرشپ کو نئی بلندیوں پر لے جانے کی بات کر رہے تھے۔ اب سوال اٹھتا ہے کہ نریندر مودی اس بحران سے کیسے نمٹیں گے، خاص طور پر اس وقت جب معیشت پہلے ہی بے یقینی اور مہنگائی کی مار جھیل رہی ہے۔
امریکہ نے یہ ٹیرف اسٹیل، ایلومینیم، سمیت ایسے مینوفیکچرنگ مصنوعات پر عائد کیے ہیں، جس کا جواز "اپنے صنعتی سیکٹر کو بچانا” بتایا گیا ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ اقدام امریکی صدارتی انتخابات سے پہلے کیا گیا تاکہ "میڈ اِن امریکہ” بیانیہ مضبوط ہو۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نے یہ کارروائی صرف اس لئے کی ہے تاکہ بھارت روس سے تیل نہ خریدے ۔اس طرح امریکی صدر ساری دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ اس سے پنگا لینا آسان نہیں اور نہ ہی اس کے پنجہ سے نکلنا آسان ہے ۔ہاؤڈی مودی سے لے کر "اب کی بار ٹرمپ سرکار”کا نعرہ لگانے والے نریندر مودی اور ان کے امریکہ میں رہنے والے ہندوستانیوں کی وہ لابی پتہ نہیں اب کیا سوچ رہی ہوگی جس لابی نے نریندر مودی کے خاص دوست ٹرمپ کو صدر بنانے کے لئے درجنوں یگیہ کرائے تھے ۔بھارت پر اسقدر بھاری بھرکم ٹیرف لگا کر ٹرمپ ایک طرف تو نریندر مودی روس کو یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ یوکرین سے مصالحت کے علاوہ اس کے پاس دوسرا کوئی راستہ نہیں کیونکہ امریکہ صرف اس پر تیل کی سپلائی روکنے کی پابندی ہی نہیں لگا سکتا بلکہ اس سے تیل خریدنے والوں اور اس کے تیل کوخرید کر تیسرے ملک کو بیچنے والوں کو بھی وہ سخت سزا دیگا ۔ساتھ ہی ساتھ یہ چین کی اقتصادی بالادستی کو توڑنے کے اسٹریٹیجک گیم پلان کا حصہ بھی ہے، جس میں بھارت ایک مہرہ بننے سے انکار کر رہا تھا۔اس بھاری بھرکم ٹیرف سے بھارت کا
برآمدی شعبہ بری طرح متاثر ہوگا ۔ خاص طور پر وہ مصنوعات جو امریکہ کو جاتی ہیں، ان پر لاگت بڑھے گی اور عالمی منڈی سے مقابلہ ناممکن ہو جائیگا ۔
ایف ڈی آئی پر اس کے منفی اثرات کے پیش نظر غیر ملکی سرمایہ کار اس اقدام کو "پالیسی رسک” کے طور پر بھی دیکھ سکتے ہیں۔ٹیرف میں اس زیادتی کے مد نظر یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ڈونالڈ ترمپ نے بھارت سرکار کو ایک کرارا
ڈپلومیٹک جھٹکا دیا ہے اور جو بائیڈن حکومت کے ساتھ بنائی گئی "دوستی” پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔
سنجیدگی سے سوچیں تو مودی حکومت کے پاس اب ایک طریقہ تو یہ ہے کہ وہ امریکہ پر جوابی ٹیرف لگائے ،لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ماضی میں (2019) بھارت نے جو جوابی ٹیرف لگائے تھے، اس کا اثر نہایت محدود رہا ۔اور اس بار جوابی ٹیرف لگانا جی 20 یا Quad کے تناظر میں تناؤ پیدا کر سکتا ہے۔
دوسرا طریقہ ڈپلومیٹک ڈائیلاگ کا ہے جس کا زیادہ وقت تو بھارت کے ہاتھوں سے نکل چکا ہے ۔لیکن اب بھی اگر محنت کی جائے تو سفارتی سطح پر بات چیت بڑھا کر اور ٹیرف کو "عارضی قدم” قرار دلوانے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔
بھارت WTO میں بھی شکایت درج کر سکتا ہے، لیکن یہ نہایت سست اور غیر یقینی راستہ ہوگا۔کیونکہWTO جیسے اداروں کی کمان بھی امریکہ کے ہی ہاتھوں میں ہے اور موجودہ صورت حال میں دنیا کے کسی ملک کی کیا مجال جو امریکہ کے معتوب بھارت کے حق میں کھڑا ہونے کی جرات کر سکے ۔بھارت چین سے قربت کا اشارہ دے سکتا ہے تاکہ امریکہ پر دباؤ بنے۔اور ممکن ہے اسی پلان کے تحت وزیر اعظم کا چین دورہ بھی ہو رہا ہو ۔لیکن یہ ایک خطرناک چال ہوگی، کیونکہ چین کے ساتھ سرحدی تنازعات ابھی تک حل نہیں ہوئےہیں ۔
ادھر حزب اختلاف نے بھی مودی سرکار کو بری طرح گھیر رکھا ہے ۔وہ مودی پر
"ناکام خارجہ پالیسی” کا الزام لگا رہا ہے۔اور اب ٹرمپ نے پچاس فیصد ٹیرف لگا کر حزب اختلاف کے ہاتھ میں ناقص خارجہ پالیسی کا ثبوت بھی پکڑا دیا ہے ۔اب مودی سرکار پر
کسان، مزدور اور ایکسپورٹ انڈسٹری سے جڑے طبقات بھی دباؤ بڑھائیں گے۔اور بہت ساری انڈسٹری جب بند ہونا شروع ہوگی تب بیروزگاری میں بھی زبردست اضافہ ہوگا جس کے دباؤ کو برداشت کرنا موجودہ سرکار کے بس میں قطعی نہیں ہے کیونکہ نہ تو اس کے پاس کوئی پلان ہے اور نہ بیروزگاری دور کرنے کی کوئی پالیسی ۔بلاشبہ اس موقعہ کا فائدہ اٹھا کر حزب اختلاف مودی کو "عالمی نیتا” کے قطب مینار سےاتار کر معاشی بحران کا ذمہ دار” قرار دے سکتا ہے ۔اور عوام کو اس کا یقین بھی ہو سکتا ہے ۔
اب گیند نریندر مودی کے کورٹ میں ہے۔ وہ یا تو جارحانہ جوابی اقدامات کریں، یا خاموشی سے یہ مان لیں کہ عالمی طاقتوں کے کھیل میں بھارت ابھی بھی کمزور کھلاڑی ہے۔ اگر مودی حکومت نے بروقت حکمت عملی نہ اپنائی، تو یہ ٹیرف اسٹرائک صرف معیشت ہی نہیں، بلکہ مودی کے عالمی امیج کو بھی تباہ و برباد کر سکتی ہے ۔