بدھ کے روز دہلی میں آر ایس ایس کے سرسنگھ چالک موہن بھاگوت نے سنگھ کی سہ روزہ سو سالہ تقریبات کے پہلے دن اپنی تقریر میں رابندر ناتھ ٹیگور کا ایک مشہور خیال پیش کرتے ہوئے کہا کہ "ہمارے سماج میں جاگرتی سیاست سے نہیں آئے گی، بلکہ مقامی قیادت سے آئے گی۔ نایک وہ ہے جو خود شفاف کردار رکھتا ہو، جس کا عوام سے مستقل رشتہ ہو، جس پر سماج کو اعتماد ہو اور جو اپنے ملک کے لیے جیون مرن کا وِرن کرے۔”یہ الفاظ ایک صدی پرانے ہیں مگر آج بھی حقیقت کی طرح چبھتے ہیں۔ لیکن تضاد یہ ہے کہ جب یہ الفاظ موہن بھاگوت کے منہ سے نکلے تو وہ خود اپنی ہی بنائی ہوئی دنیا کے خلاف گواہی دے رہے تھے۔ کیونکہ اگر نایک وہ ہے جو عوام کو جوڑتا ہے تو مودی، امت شاہ، یوگی آدتیہ ناتھ اور بسوا سرما کس کھاتے میں آتے ہیں؟ یہ سب وہ کردار ہیں جو سماج کو بانٹنے اور نفرت کی کھیتی کرنے میں مصروف ہیں۔ٹیگور نے اپنے مشہور خطبے "نیشنلزم ان انڈیا” (1917) میں کہا تھا "نیشنلزم انڈیا کے لیے ایک خطرہ ہے اگر یہ محض مشین بن جائے، اگر یہ انسانیت کو کچل دے۔ ہندوستان کا اصل روحانی مشن ہے انسان کو انسان سے جوڑنا، نہ کہ تقسیم کرنا۔”یہی وہ نکتہ ہے جہاں ٹیگور اور آر ایس ایس کی سوچ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ٹیگور کے نزدیک قومیت انسانیت کے دائرے میں ہے، جبکہ آر ایس ایس کے نزدیک قومیت مذہب کے تنگ دائرے میں قید ہے۔آر ایس ایس کے نظریاتی باپ ایم ایس گولوالکر نے اپنی کتاب "We, or Our Nationhood Defined” (1939) میں صاف کہا تھا "ہندوستان میں رہنے والی اقلیتوں کے پاس صرف دو راستے ہیں: یا تو وہ ہندو کلچر میں ضم ہو جائیں یا پھر وہ اس ملک میں اجنبیوں کی طرح رہیں، ان کے لیے کوئی حق نہیں ہوگا۔”
اسی طرح ساورکر نے "ہندوتوا: Who is a Hindu?” (1923) میں یہ تعریف دی کہ”ہندو وہ ہے جس کی جنم بھومی اور پُن بھومی (مقدس زمین) دونوں ہندوستان ہوں۔”اس تعریف کے مطابق مسلمان اور عیسائی خود بخود دوسرے درجے کے شہری بن جاتے ہیں کیونکہ ان کا قبلہ مکہ یا یروشلم کی طرف ہے۔اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ نظریات "نایک” پیدا کرتے ہیں یا "آمرانہ پجاری”موہن بھاگوت جب "شفاف کردار والے نایک” کی بات کرتے ہیں تو کیا انہیں مودی یاد نہیں آتے جن پر 2002 کے گجرات فسادات کے داغ ہیں؟ کیا انہیں امت شاہ یاد نہیں آتے جن پر فرضی انکاؤنٹر کے مقدمات درج ہوئے تھے؟ کیا انہیں یوگی آدتیہ ناتھ یاد نہیں آتے جن کے جلسوں میں کھلے عام مسلمانوں کو "کبرستان” اور ہندوؤں کو "شمشان” سے جوڑا جاتا ہے؟اگر نایک وہ ہے جو سماج کو جوڑے تو یہ سب اس کے بالکل الٹ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بھاگوت کی تقریر دراصل "اخلاقی منافقت” کا مظاہرہ تھی۔ وہ جانتے ہیں کہ مودی اور ان کے ساتھی سماج کو توڑ رہے ہیں لیکن چونکہ آر ایس ایس ان سب کی پشت پر کھڑی ہے، اس لیے وہ نام لے کر کچھ نہیں کہتے۔ٹیگور نے کہا تھا”جہاں دماغ آزاد ہو اور سر اونچا، جہاں علم آزاد ہو، جہاں تنگ دیواریں دل و دماغ کو نہ بانٹیں ، وہی میرا ہندوستان ہے۔”مگر آج کے ہندوستان میں دماغ آزاد نہیں، میڈیا غلام ہے، یونیورسٹیاں خاموش ہیں اور عدالتیں ڈری ہوئی ہیں۔ یہ سب آر ایس ایس اور بی جے پی کی "یونیفارم نفرتی پالیسی” کا نتیجہ ہے۔سنگھ کا ایجنڈا صرف ایک ہے ۔ ہندوستان کو "ہندو راشٹر” میں بدلنا۔ اس کے لیے انہیں نایک نہیں بلکہ "کٹھ پتلی” چاہیے — اور یہی کردار مودی بخوبی نبھا رہے ہیں۔ یوگی، امت شاہ اور بسوا سرما یوگی آدتیہ ناتھ کے بلڈوزر آئین اور عدالت کو روندتے ہیں۔امت شاہ کے "گھس پیٹھیے” کے نعرے سماج کو بانٹتے ہیں۔بسوا سرما مسلمانوں کو "دوسرے درجہ کا شہری” بنا کر پیش کرتے ہیں۔یہ سب نفرت کی کھیتی ہے۔ اور اس کھیتی کو سینچنے والا مکھیا ہے آر ایس ایس۔مودی نے خود کو "ہندو ہردے سمراٹ” اور "وکاس پرش ” کہلوایا، لیکن آج ان کا چہرہ بے نقاب ہو رہا ہے۔وکاس غائب ہے، بے روزگاری اور مہنگائی نے کمر توڑ دی ہے۔کسان آندولن نے مودی سرکار کی جھوٹی پالیسیاں بے نقاب کیں۔عدلیہ اور میڈیا ان کے دباؤ میں دبے ہیں۔یہ سب ایک "جعلی ہیرو ” کی پہچان ہے، نہ کہ اصل لیڈر کی۔آج ہندوستان کو جس نایک کی ضرورت ہے وہ ٹیگور کے تصور کے مطابق ہے۔جو انسانیت کو مذہب پر فوقیت دے۔جو غربت اور ناانصافی کے خلاف لڑے۔جو اقلیت و اکثریت کے درمیان پل باندھے۔جو اقتدار کو خدمت سمجھے، نہ کہ لوٹ مار۔یہ قیادت سنگھ کی درسگاہوں سے نہیں نکلے گی بلکہ عوامی تحریکوں، کسانوں، مزدوروں، طلبہ اور مظلوم طبقات سے ابھرے گی۔ موہن بھاگوت کے الفاظ دراصل "نایک” کی نہیں بلکہ "کٹھ پتلی نایک” کی وضاحت کر رہے ہیں۔ آر ایس ایس جانتی ہے کہ مودی اور ان کے ساتھی اصل نایک نہیں بلکہ اس کے نظریاتی ایجنڈے کے نفاذ کے اوزار ہیں۔
ٹیگور کی ایک صدی پرانی آواز آج بھی گونج رہی ہے مگر آر ایس ایس اسے مسخ کر کے پیش کر رہی ہے۔ اگر ہندوستان کو بچانا ہے تو عوام کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اصل نایک وہ نہیں جو ٹی وی اسکرین پر دن رات دکھایا جائے بلکہ وہ ہے جو عوام کے دکھ درد میں ساتھ کھڑا ہو۔