دہلی میں آر ایس ایس کے سہ روزہ پروگرام کے دوران سرسنگھ چالک نے ایک بار پھر وہی پرانی تکرار دہرائی کہ فرد کے کردار سے سماج میں تبدیلی ممکن ہے۔جب سماج بدلے گا تو نظام خود بخود درست ہو جائے گا۔اور نہایت دیدہ دلیری سے یہ بھی کہا کہ ” ہندوستان ایک ہندو راشٹرا ہے”موہن بھاگوت کے مطابق ان تین نکات کو چھوڑ کر سنگھ میں سب کچھ بدلا جا سکتا ہے۔
یہ اعلان دراصل سنگھ کے فکری ایجنڈے کی بنیاد ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب ملک کا آئین صاف طور پر اسے ایک سیکولر جمہوریہ قرار دیتا ہے تو "ہندو راشٹرا” کی ضد کیوں؟ اور آخر سنگھ کو بار بار وضاحت دینے کی ضرورت کیوں پیش آ رہی ہے کہ بی جے پی اس کی ہر بات ماننے پر مجبور نہیں ہے؟ آر ایس ایس اور بی جے پی کے رشتے کو "آزاد” کہنا ایک مضحکہ خیز دعویٰ ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جن سنگھ سے بی جے پی تک یہ پورا سیاسی ڈھانچہ سنگھ ہی کی گود میں پروان چڑھا ہے۔نریندر مودی آر ایس ایس کی شاکھا کے پروڈکٹ ہیں ۔امیت شاہ: سنگھ کے نظریاتی تربیتی حلقوں کے تیار کردہ ہیں ۔راجناتھ سنگھ، ناتھو رام گوڑسے، ایل کے ایڈوانی سب کے سب سنگھ کے پرانے تربیتی حلقوں کے افراد ہیں۔ایسے میں یہ کہنا کہ بی جے پی آزاد ہے محض عوام کو بہلانے والا بیان ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی کا انتخابی ایجنڈا ہو یا پالیسی سازی — سب کچھ سنگھ کے نظریے کا عکس ہے۔اب ذرا ایک نظر ہندو راشٹرا بمقابلہ آئین ہند پر بھی ڈالتے چلیں ۔اول تو دستور ہند کے دیباچہ میں واضح طور پر درج ہے کہ "ہم، بھارت کے لوگ، بھارت کو ایک سیکولر، سوشلسٹ، جمہوریہ قرار دیتے ہیں…”یعنی آئین کا بنیادی ڈھانچہ سیکولرزم پر قائم ہے۔لیکن "ہندو راشٹرا” کا نعرہ اس کے برعکس ہے۔ یہ ساورکر اور گولوالکر کی سوچ سے جڑا ہوا تصور ہے جس کے مطابق بھارت صرف ہندوؤں کا ملک ہے اور باقی سب دوسری صف کے شہری ہیں۔گولوالکر نے اپنی کتاب وی آر آور نیشن ہُڈ ڈیفائنڈ (1939) میں صاف لکھا تھا کہ "ہندوستان میں رہنے والے غیر ہندو یا تو ہندو تہذیب کو قبول کریں یا پھر ماتحت شہری کے طور پر زندگی گزاریں۔”تو کیا اس کے بعد بھی کوئی گنجائش رہ جاتی ہے کہ آر ایس ایس کی سوچ آئین کے بنیادی اصول مساوات اور جمہوریت کے سراسر خلاف ہے۔یہاں یہ یاد رکھنا بھی نہایت ضروری ہے کہ سپریم کورٹ نے بارہا آئین کے سیکولر ڈھانچے کو ناقابلِ تنسیخ قرار دیا ہے۔ کیشوانند بھارتی کیس (1973)
سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ پارلیامنٹ کو ترمیم کا حق ضرور ہے لیکن وہ آئین کے بنیادی ڈھانچے (Basic Structure) کو نہیں بدل سکتی۔ اور اس بنیادی ڈھانچے میں سیکولرزم شامل ہے۔ ایس۔ آر۔ بومئی کیس (1994) عدالت نے کہا کہ سیکولرزم آئین کی روح ہے، اور کوئی بھی ریاستی حکومت اگر اس اصول کے خلاف کام کرے تو اسے برطرف کیا جا سکتا ہے۔یہ فیصلے اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ "ہندو راشٹرا” کے تصور کو آئینی سطح پر کبھی بھی قبول نہیں کیا جا سکتا۔کیونکہ بھارت کی ساخت ہی کثیر مذہبی و کثیر ثقافتی ہے۔ یہاں20 کروڑ سے زیادہ مسلمان اور 3 کروڑ عیسائی ہیں۔لاکھوں سکھ، بدھ، جین اور دیگر اقلیتیں آباد ہیں۔ایسے ملک میں "ہندو راشٹرا” کا نعرہ لگانا دراصل ملک کی وحدت کے ساتھ کھلواڑ کے مترادف ہے۔لیکن بی جے پی اس
نظریے کا عملی نفاذ چاہتی ہے ۔سنگھ کے ایجنڈے کو بی جے پی کی حکومت نے مختلف طریقوں سے عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی ہے اس میں کسے کوئی شک ہے ؟
اتر پردیش میں "لو جہاد” کے نام پر قانون بنایا گیا، جو دراصل بین المذاہب شادیوں کو روکنے کی مذموم کوشش ہے۔
مدھیہ پردیش میں گؤ رکشا کے نام پر درجنوں مسلمان ہلاک یا جھوٹے مقدمات میں گرفتار کیے گئے۔آرٹیکل 370 کی منسوخی کو "ہندوتوا” کے ایجنڈے کی کامیابی قرار دیا گیا۔
سی اے اے شہریت ترمیمی قانون مسلمانوں کو نشانہ بناتا ہے اور آئینی مساوات کے اصول کے خلاف ہے۔یہ تمام مثالیں بتاتی ہیں کہ "ہندو راشٹرا” کا نظریہ اب صرف نظریاتی بحث نہیں رہا بلکہ حکومتی پالیسیوں میں ڈھل چکا ہے۔اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ سنگھ کو بار بار وضاحت دینے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟تو اس کا جواب ہے بین الاقوامی دباؤ امریکہ، یورپ اور اقوام متحدہ بارہا بھارت کو یاد دلا چکے ہیں کہ اس کی سیکولر پہچان متاثر ہو رہی ہے۔داخلی حقیقت بھی بہت حوصلہ افزا نہیں ہے ۔بھارت کی 30 فیصد آبادی غیر ہندو ہے۔ ان کو نظرانداز کرنا یا دوسرے درجے کا شہری بنانا ملک کے اتحاد کے لئے خطرہ ہے۔اور ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ کھلے عام "ہندو راشٹرا” کی وکالت کرنے سے بی جے پی کو انتخابی نقصان بھی ہو سکتا ہے، خاص طور پر جنوبی اور شمال مشرقی ریاستوں میں۔ آر ایس ایس کے سہ روزہ پروگرام میں دہرائے گئے یہ تین نکات دراصل سنگھ کےایجنڈے کی اصل کہانی سناتے ہیں۔ فرد سے سماج اور سماج سے نظام بدلنے کی بات دراصل ایک نظریاتی حکمتِ عملی ہے۔ لیکن "ہندو راشٹرا” کا نعرہ براہ راست آئین کے سیکولر ڈھانچے سے متصادم ہے۔سپریم کورٹ نے بارہا یہ واضح کیا ہے کہ سیکولرزم آئین کا لازمی جز ہے اور اسے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن زمینی سطح پر سنگھ اور بی جے پی مل کر اس نظریے کو کمزور کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا بھارت اپنے بانیانِ آئین کے خواب ایک سیکولر، جمہوریہ کو بچا پائے گا ؟ یا پھر رفتہ رفتہ یہ ملک ایک مذہبی اکثریت کے دباؤ میں اپنی جمہوری روح کھو دے گا؟ یہ فیصلہ عوام کو کرنا ہے اور وقت بہت کم ہے۔