امریکہ کی سیاست میں ڈونالڈ ٹرمپ ایک ایسا کردار ہیں جو ہمیشہ ہی دنیا کو چونکاتے رہے ہیں۔ کبھی سخت گیر بیانات، کبھی سفارتی لچک، کبھی "امریکہ فرسٹ” کا نعرہ، اور کبھی مشرقِ وسطیٰ میں امن کا وعدہ۔ اب جبکہ یہ خبریں آرہی ہیں کہ ٹرمپ ایک جامع منصوبہ لے کر عرب اور مسلم رہنماؤں کے سامنے پیش ہونے جا رہے ہیں تاکہ اسرائیل کے غزہ پر جاری جنگ کو ختم کیا جا سکے، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ محض ایک سیاسی ڈرامہ ہے یا واقعی ٹرمپ عالمی امن کی سمت کوئی قدم بڑھانا چاہتے ہیں؟ اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ عرب دنیا اس بار کیا رویہ اختیار کرے گی — سنجیدگی یا سادہ لوحی؟
غزہ میں اسرائیل کے حملے کوئی نئی بات نہیں۔ لیکن پچھلے برسوں میں یہ جنگ اپنی شدت، تباہ کاری اور انسانی جانوں کے ضیاع کے لحاظ سے ایک ایسی شکل اختیار کر گئی ہے جس نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ دیا ہے۔ ہزاروں بے گناہ فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، لاکھوں گھر تباہ ہو گئے ہیں اور پورا خطہ انسانی المیے کا شکار ہے۔عالمی سطح پر مختلف طاقتیں اس جنگ کو ختم کرنے کے لئے آوازیں بلند کرتی رہی ہیں۔ یورپی یونین نے کئی بار فائر بندی کا مطالبہ کیا، اقوام متحدہ کی قراردادیں منظور ہوئیں، لیکن عملی طور پر اسرائیل اور اس کے پشت پناہ امریکہ نے ان مطالبات پر کوئی خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔ٹرمپ کے دورِ صدارت میں "ابراھیم معاہدے” ایک بڑی پیش رفت کے طور پر سامنے آئے جن کے تحت چند عرب ممالک نے اسرائیل سے تعلقات قائم کئے۔ فلسطینی عوام اور قیادت نے اس معاہدے کو ایک دھوکہ قرار دیا کیونکہ اس میں فلسطین کا مسئلہ یکسر نظر انداز کر دیا گیا تھا۔ تاہم، ٹرمپ کی سیاسی فطرت یہ ہے کہ وہ بڑے فیصلے اور ڈرامائی اقدامات کے ذریعے اپنی پہچان بناتے ہیں۔ اب جب وہ دوبارہ سیاسی منظرنامے پر فعال ہیں تو غزہ کی جنگ کے خاتمے کا منصوبہ ان کے لئے ایک عالمی سطح پر اپنی ساکھ بنانے کا موقع ہے۔ لیکن سوال پھر وہی ہے: کیا ٹرمپ واقعی مخلص ہیں یا یہ محض عرب دنیا کو ایک نئے سیاسی کھیل میں الجھانے کی کوشش ہے؟
عرب دنیا کی قیادت نے ماضی میں بارہا مغربی طاقتوں، خاص طور پر امریکہ پر اندھا اعتماد کیا ہے۔ عراق کی جنگ ہو، شام کی تباہی ہو، لیبیا کا بحران ہو یا فلسطین کا سوال — ہر بار عرب دنیا کو سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے لیکن فیصلے مغرب کی مرضی سے ہوتے رہے ہیں۔اب اگر ٹرمپ کوئی منصوبہ پیش کرتے ہیں تو عرب رہنماؤں کے لئے یہ وقت ہے کہ وہ اپنی تاریخ سے سبق لیں اور صرف الفاظ یا وعدوں پر بھروسہ نہ کریں۔ انہیں اپنے مفاد، اپنے عوام کے جذبات اور فلسطینیوں کی قربانیوں کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرنا ہوگا۔
اگر ٹرمپ واقعی ایک ایسا منصوبہ پیش کرتے ہیں جس میں فلسطینی ریاست کے قیام، غزہ کی تعمیرِ نو، اور اسرائیلی مظالم کے خاتمے کی ضمانت ہو، تو یہ نہ صرف خطے بلکہ دنیا کے لئے ایک بڑی کامیابی ہوگی۔ عرب ممالک کو چاہیے کہ وہ اس موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیں اور ایک مشترکہ مؤقف اختیار کریں۔لیکن انہیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ٹرمپ کا منصوبہ اسرائیل کے حق میں جھکا ہوا نہ ہو۔
زیادہ امکان اسی کا ہے کہ ٹرمپ کا منصوبہ دراصل اسرائیل کو فائدہ پہنچانے اور فلسطینیوں کو مزید دباؤ میں لانے کے لئے ہو۔ ایسی صورت میں اگر عرب دنیا اندھے اعتماد کے ساتھ اس منصوبے پر دستخط کرتی ہے تو یہ فلسطین کے لئے ایک اور دھوکہ ہوگا۔ تاریخ گواہ ہے کہ اگر عرب ممالک متحد ہو جائیں تو دنیا کی کوئی طاقت انہیں نظر انداز نہیں کر سکتی۔ لیکن اگر وہ تقسیم رہیں، جیسا کہ اکثر ہوا ہے، تو اسرائیل اور اس کے حامی ہر موقع سے فائدہ اٹھائیں گے۔اور اس کے لئے سب اہم یہ ہے کہ فلسطینی قیادت کی شمولیت ضروری ہے ۔کسی بھی امن منصوبے میں فلسطینیوں کو مرکزی فریق بنانا اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس کے بغیر امن کی کوئی بھی کوشش محض ایک کھوکھلا معاہدہ ہوگی ۔سعودی عرب، مصر، قطر، ترکی اور دیگر اہم ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر آنا ہوگا تاکہ امریکہ یا ٹرمپ ان کے اختلافات کا فائدہ نہ اٹھا سکیں۔عرب دنیا کو چاہیے کہ وہ یورپی یونین، روس، چین اور دیگر عالمی طاقتوں کو ساتھ ملا کر اسرائیل پر دباؤ ڈالے۔ صرف امریکی وعدوں پر انحصار کرنا ایک اور غلطی ہوگی۔
عرب حکومتوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ان کے عوام فلسطین کے ساتھ جذباتی اور تاریخی وابستگی رکھتے ہیں۔ اگر وہ عوام کے جذبات کے خلاف کوئی معاہدہ کرتے ہیں تو اس کے نتائج اندرونی سطح پر بھی سنگین ہو سکتے ہیں۔سری لنکا بنگلہ دیش اور نیپال کی تازہ مثالیں سامنے ہیں ۔
ٹرمپ جانتے ہیں کہ امریکہ میں انتخابات قریب ہیں۔ وہ عرب اور مسلم دنیا کے سامنے اگر امن کا کوئی قابلِ عمل منصوبہ رکھتے ہیں اور اس میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ ان کی انتخابی مہم کے لئے ایک بڑا کارڈ ہوگا۔ وہ دنیا کو یہ دکھا سکیں گے کہ وہ صرف "امریکہ فرسٹ” کے ہی نہیں بلکہ "عالمی امن” کے بھی علمبردار ہیں۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ ٹرمپ اسرائیلی لابی کے سخت دباؤ میں رہتے ہیں اور ان کی سیاست کا بڑا انحصار یہی ہے۔
اگرچہ شک و شبہات اپنی جگہ درست ہیں لیکن ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ دنیا کے بدلتے حالات میں شاید پہلی بار امریکہ کو بھی احساس ہو رہا ہے کہ غزہ میں مسلسل جنگ نہ صرف خطے بلکہ عالمی معیشت، توانائی کی فراہمی اور سیاسی توازن کے لئے بھی خطرہ ہے۔ ایسے میں ٹرمپ کا منصوبہ اگر حقیقت میں امن کی سمت کوئی قدم ہے تو اسے موقع دیا جانا چاہیے۔
سوال یہ نہیں ہے کہ ٹرمپ واقعی سنجیدہ ہیں یا نہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ عرب اور مسلم دنیا اس موقع پر کیا رویہ اختیار کرے گی۔ کیا وہ اپنی تاریخ سے سبق سیکھ کر ایک سنجیدہ، مشترکہ اور حقیقت پسندانہ پالیسی اپنائے گی یا پھر ایک بار پھر مغربی وعدوں کے جال میں پھنس جائے گی؟
فلسطین کی آزادی اور غزہ کے امن کا مستقبل اب عرب رہنماؤں کی بصیرت، اتحاد اور جرات پر منحصر ہے۔ ٹرمپ آئیں یا کوئی اور ، اصل قوت ہمیشہ عوام اور ان کے اجتماعی شعور میں ہے۔