“ میں نے صرف اپنی رائے رکھی” یہ فقرہ جتنا سادہ ہے، اتنا ہی گہرا سوال پیدا کرتا ہے کہ کیا ہم واقعی ایسے معاشرے میں جی رہے ہیں جہاں سوچنے اور بولنے کی آزادی موجود ہے؟ کیا جمہوریت صرف ایک سیاسی ڈھانچہ ہے یا وہ نظامِ حیات ہے جس میں ہر فرد کو حق حاصل ہے کہ وہ اختلاف کر سکے، سوال اٹھا سکے اور ظالم کے سامنے ڈٹ سکے؟
آج میں بات کر رہا ہوں 22سالہ سویڈش شہری گریٹا تھنبرگ کی جو بین الاقوامی حرارت بیداری مہم کا حصہ ہیں اور ماحولیاتی مہم کی فعال خاتون کارکن ہے۔ دنیا بھر میں انھیں ماحولیات کے متعلق بیداری مہم کے لیے شناخت مل چکی ہے۔ وہ بے خوف و خطر بولتی ہین ۔تھنبرگ عوام کے سامنے، سیاسی لیڈروں کے سامنے اور ایوانوں میں بلا جھجک گفتگو کرتی ہیں اور آب و ہوا کی خرابی پر فوراً عمل درآمد کرنے کی کی طرف توجہ دلاتی ہیں۔لیکن آج وہی
22 سالہ نابغہ لڑکی مشہور ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ صرف اپنی رائے رکھنے پر اسرائیل کے ہاتھوں ذلیل و رسوا کی جاتی ہے، اسے جبراً ایک ناپسندیدہ جھنڈا چومنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور اسے حراست میں لے لیا جاتا ہے، تو سوال اٹھتا ہے کہ کیا یہی ہے وہ جمہوریت اور اظہارِ رائے کی آزادی جس پر دنیا فخر کرتی ہے؟
اکتوبر 2025 میں گریٹا تھنبرگ اور ان کے ساتھی کارکنان غزہ کے لیے انسانی ہمدردی کی امداد لے کر ایک بحری مہم پر روانہ ہوئے جسے “گلوبل صمود فلوٹیلا” کہا گیا۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس اور گارڈین کے مطابق، اسرائیلی بحریہ نے انہیں بین الاقوامی آبی حدود میں ہی روک لیا اور سب کو حراست میں لے لیا۔
گریٹا کے ساتھ موجود کارکنوں نے الزام لگایا کہ انہیں گندے اور ناقص سہولتوں والے کمروں میں رکھا گیا،انہیں مناسب کھانا اور پانی فراہم نہیں کیا گیا،ان پر اسرائیلی جھنڈا چومنے یا تھامنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا،اور بعض کو زمین پر گھسیٹا گیا یا بالوں سے پکڑ کر کھینچا گیا۔دوسری جانب، اسرائیلی حکومت نے دیدہ دلیری کے ساتھ ان تمام الزامات کو “بے بنیاد اور جھوٹا” قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ تمام گرفتار شدگان کے ساتھ قانون کے مطابق برتاؤ کیا گیا۔
کیا جمہوریت اور آزادیٔ اظہار کو کچلنے کا یہ واقعہ جمہوری اقدار کی نفی نہیں کرتا ؟
جمہوریت کا مطلب صرف الیکشن یا ووٹ نہیں ہوتا، بلکہ اس کی بنیاد اختلاف، تنقید اور سوال کی آزادی پر ہوتی ہے۔
اگر کوئی شہری یا کارکن کسی حکومتی پالیسی سے اختلاف کرے اور اسے اس کی پاداش میں ذلیل کیا جائے، تو یہ جمہوریت نہیں، بلکہ آمریت کی جدید صورت ہے۔جمہوریت میں ریاست کا فرض ہے کہ وہ اختلافِ رائے کو جگہ دے، نہ کہ اسے کچلنے کی کوشش کرے۔ گریٹا پر ہونے والا برتاؤ اسی اصول کی نفی کرتا ہے۔آزادیٔ اظہار محض ایک قانونی اصطلاح نہیں بلکہ انسانی وقار کی اساس ہے۔
گریٹا تھنبرگ نے کسی تشدد کی ترغیب نہیں دی، کسی حکومت کو گرانے کا مطالبہ نہیں کیا اس نے صرف یہ کہا کہ غزہ کے مظلوموں تک انسانی امداد پہنچائی جائے۔اگر اس رائے کی سزا گرفتاری اور ذلت ہے، تو یہ جمہوری دنیا کے لیے ایک شرمناک منظرنامہ ہے۔اگر یہ درست ہے کہ انہیں زبردستی اسرائیلی جھنڈے کو چومنے پر مجبور کیا گیا تو یہ صرف جسمانی نہیں بلکہ روحانی و فکری غلامی کی علامت ہے کہ انسان کو اس کی سوچ، نظریے اور احساسات کے خلاف جھکنے پر مجبور کیا جائے۔ یہ واقعہ اس لیے بھی سنگین ہے کہ متاثرہ ایک نوجوان خاتون ہیں۔
دنیا بھر میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ طاقتور طبقات خواتین کی آواز کو یا تو کمزور سمجھتے ہیں یا دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔گریٹا تھنبرگ نہ صرف ماحولیات بلکہ انصاف، امن اور انسانی ہمدردی کی علامت بن چکی ہیں۔ ان کے خلاف یہ سلوک دراصل یوتھ ایکٹیوزم اور خواتین قیادت کے خلاف خوف کا مظہر ہے۔ ریاست کو اپنی سرحدوں اور شہریوں کی حفاظت کا حق حاصل ہے، مگر اس حق کے ساتھ ذمہ داری بھی آتی ہے کہ وہ انسانی حقوق اور بین الاقوامی قانون کی پاسداری کرے۔اگر اسرائیل نے واقعی بین الاقوامی پانیوں میں مہم کو روکا اور پرامن کارکنوں کو حراست میں لیا، تو یہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔اور اگر ان پر جسمانی یا ذہنی دباؤ ڈالا گیا تو یہ ایک ریاستی جبر ہے، جس کی مذمت نہ صرف اخلاقی بلکہ قانونی بنیادوں پر ضروری ہے۔یہ دنیا اور انسانیت کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ وہ اسرائیل کو اس کی سزا دے ۔لیکن جمہوریت اور اس کے قدروں کی دہائی دینے والا امریکہ سمیت عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی یہ بتا رہی ہے کہ جمہوری نظام صرف طاقتوروں کی رکھیل ہے ۔دنیا کے بیشتر طاقتور ممالک ایسے واقعات پر دوہرا معیار اپناتے ہیں۔جہاں ان کے مفادات متاثر ہوں، وہاں وہ انسانی حقوق کے نعرے بلند کرتے ہیں؛ لیکن جہاں ان کے اتحادی ملوث ہوں، وہاں وہ خاموشی کو بہتر سمجھتے ہیں۔
یہ منافقت عالمی ضمیر پر بدنما داغ ہے۔جمہوریت صرف حکومتوں سے نہیں بنتی، بلکہ باشعور شہریوں سے قائم رہتی ہے۔اگر ہم ظلم کے خلاف خاموش رہیں، تو ظلم کو جواز ملتا ہے۔ہمیں چاہیے کہ ہم آزاد میڈیا، انسانی حقوق کی تنظیموں اور انصاف کی آواز کو مضبوط کریں۔
نوجوان نسل کی امیدیں ٹوٹ رہی ہیں ،ان کے حوصلے ٹوٹ رہے ہیں ،ان سے نئی اور بہتر دنیا بنانے کی توقع فضول ہے ۔کیونکہ ٹوٹے ہوئے پنکھ بلند پروازی کے ریکارڈ نہیں بناتے ۔
گریٹا تھنبرگ اس نسل کی نمائندہ ہیں جو زمین کو بہتر بنانے کا خواب دیکھتی ہے۔اگر ان جیسی آوازیں دبائی جائیں گی تو آنے والی نسلوں کے خواب بھی دفن ہو جائیں گے۔
یہ وقت ہے کہ دنیا یہ طے کرے کہ کیا ہم نوجوانوں کی سوچ کو پروان چڑھائیں گے یا ان کے ہونٹ سی دیں گے؟ یہ واقعہ محض ایک سیاسی تنازع نہیں، بلکہ انسانی وقار، جمہوریت اور آزادیٔ اظہار کی آزمائش ہے۔
اگر ایک لڑکی جو صرف امن اور انسانی امداد کی بات کرے اسے ذلیل کیا جاتا ہے، تو یہ صرف اس کا نہیں بلکہ پوری انسانیت کا اپمان ہے ۔جمہوریت کی اصل روح یہی ہے کہ اختلاف کو سنا جائے، دبایا نہیں جائے۔اور اگر ریاست خود اختلاف کو جرم بنا دے، تو وہ جمہوریت کی موت کا اعلان کرتی ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ آزادیٔ رائے کوئی تحفہ نہیں، ایک ذمہ داری ہے۔اور جب دنیا اس ذمہ داری سے منہ موڑ لیتی ہے، تو طاقت سچ کو روند دیتی ہے اور تب تاریخ لکھتی ہے کہ
“انسان آزاد پیدا ہوا تھا، مگر اس کی آواز زنجیروں میں جکڑ دی گئی۔”