دور نبوی کے مقابلہ میں دور صحابہؓ میں اختلافات زیادہ ملتے ہیں اور صحابہؓ کے بعد تابعین اور پھر تبع تابعین میں اختلافات کا دائرہ اور بڑھ جاتا ہے۔ خصوصاً حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت کے بعد مسلم آبادیوں میں ایک سخت طوفان آتا ہے اور بہت سے ایسے مسائل منصہ ظہور پر آتے ہیں جن کا پہلے نام ونشان بھی نہ تھا۔ بعض سیاسی حالات نے ایسے معاملات پیدا کیے جن سے اختلافات کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔ ان سیاسی حالات کے نتیجہ میں کوفہ وبصرہ ایسے مکتب فکر کی حیثیت سے ابھرے جہاں سیاسی افکار کی کارفرمائی تھی۔ اسی سیاسی فضا میں خوارج اور مرجیہ جیسے فرقے وجود میں آئے اور غوروفکر کے متعدد نقاطِ نظر کی بنیاد پڑی۔ ان حالات میں فقہاءنے اس ضرورت کو شدت سے محسوس کیاکہ وہ قرآن وحدیث سے مسائل مستنبط کرنے کے لیے کچھ اصول اور ضابطوں کی تعیین کریں تاکہ اسلامی احکام میں من مانی کو دخل حاصل نہ ہوسکے۔ چنانچہ شب وروزکی محنت سے اس طرح کے اصول وضوابط متعین کیے گئے جن کی روشنی میں فروعی احکام مستنبط کیے جاسکیں، ان قواعد وضوابط کی تعیین میں فقہاءکے درمیان اختلافات بھی پیدا ہوئے جس کے نتیجہ میں ان کے مستنبط کردہ مسائل میں اختلاف ہونا قدرتی بات تھی۔ چنانچہ فقہی مسائل میں اختلافات کا ایک طوفان امنڈتا ہوا محسوس ہوا مگر فقہاءنے بعض اصولوں سے اس طوفان کو دبا دیا مثلاً یہ روایت طے پائی کہ صرف ان اختلافات کو جائز قرار دیاجائے جو ایسی دلیل کی بنیاد پر ہوں جس سے استدلال کرنا صحیح ہو، مخالف کے مسلک کو اختیار کرنا حرام اور ناجائز نہ سمجھا جائے، اپنی رائے کے خلاف کوئی بات اگر قرآن وحدیث سے ثابت ہوجائے تو اپنی رائے سے رجوع کرلیا جائے۔ ان اصولوں کی روشنی میں فقہ اور اصول فقہ کی تدوین عمل میں آئی اور تابعین وتبع تابعین تمام تر اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کی رائے کو وقعت اور اہمیت دیتے رہے۔ ان کے ادب واحترام کو ضروری سمجھتے رہے، باہمی نزاع ومخاصمت سے اجتناب کرتے رہے، اور کسی بھی موقع پر خواہش نفس کو دخل دینے کی جازت نہ دی۔دورِ نبوت کے بعد صحابہؓکے درمیان سب سے پہلا اختلاف آنحضرت کی وفات کے سلسلہ میں ہوا۔ جب آنحضرت کی وفات کی خبر حضرت عمرؓ نے سنی تو ان کی رائے یہ بنی کہ یہ افواہ منافقین کی سازش ہے۔ اللہ کے رسول کو موت نہیں آسکتی۔ چنانچہ انہوں نے جذبات سے مغلوب ہوکر میان سے تلوار کھینچ لی اور اعلان کردیاکہ جو شخص یہ بات کہے گا کہ اللہ کے رسول کو موت آگئی ہے۔ میں اس کا سرقلم کردوں گا۔ حضرت ابو بکرؓ کو معلوم ہوا تو ایک تقریر کی اور یہ آیات پڑھیں:
”محمد اس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ جس ایک رسول ہیں ان سے پہلے اوررسول بھی گزر چکے ہیں۔ پھر کیا وہ اگر مرجائیں یا قتل کردیئے جائیں تو تم لوگ الٹے پاؤں پھر جاؤ گے۔ یاد رکھو جو الٹا پھرے گا وہ اللہ کا کچھ نقصان نہ کرے گا۔ البتہ جو اللہ کے شکر گزار بندے بن کر رہیں گے انہیں وہ اس کی جزا دے گا۔“(آل عمران144) ان آیات کا سننا تھا کہ حضرت عمرؓ کے ہاتھ سے تلوار چھوٹ گئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کا یقین ہوگیا۔اس کے بعد آنحضور کی تدفین کے سلسلہ میں اختلاف واقع ہوا۔ بعض صحابہؓ کی رائے تھی کہ آپؓ کی تدفین مسجد نبوی میں ہو، کچھ حضرات کا خیال تھا کہ آپ کی تدفین وہاں ہو جہاں صحابہءکرامؓ مدفون ہیں، کچھ حضرات کی رائے یہ تھی کہ آپ کی تدفین گھر ہی میں ہو۔ اس اختلاف کے بارے میں حضرت ابو بکرؓ کو معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ کو فرماتے ہوئے سنا ہے:ہر نبی اس جگہ دفن کیا جاتا ہے جہاں وہ وفات پاتا ہے۔
اس ارشاد نبوی کا سننا تھا کہ تمام باہمی اختلاف دور ہوگئے اور آنخصور کو اسی جگہ دفن کیا گیا جہاں آپ نے وفات پائی تھی۔
خلیفۂ رسول کے انتخاب کے سلسلہ میں سخت اختلاف ہوا غور کیجئے کس قدر نازک اور جذباتی تھایہ مسئلہ! مگر جس خوش اسلوبی سے اس مسئلہ کو سلجھایا گیا اور باہمی اختلافات کو دور کیاگیا انتخابات کی پوری تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ مانعینِ زکوٰۃ کے سلسلہ میں بھی سخت اختلاف رائے سامنے آیا، حضرت عمرؓ جیسے سخت مزاج صحابیؓ کی رائے یہ تھی کہ مانعینِ زکوۃکے ساتھ نرمی برتی جائے مگر جب حضرت ابو بکرؓ نے قرآن سے استدلال کرکے اپنے موقف کی وضاحت فرمائی تو تمام اختلاف کا فور ہوکر رہ گیا۔حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے درمیان تقریباً37مواقع اور مسائل میں اختلاف رائے ہوا اور بعض اوقات دونوں اپنی رائے پر قائم رہے۔ مگر ایک دوسرے کی وقعت اور ادب واحترام میں کوئی کمی نہ آئی۔ یہاں تک کہ جب حضرت ابوبکرؓسے ان کے مرض الموت میں پوچھا گیا کہ آپ اپنے بعد کس کو خلیفہ بناتے ہیں؟ تو انہوں نے نہایت خوشی اور اعتماد کے ساتھ کہا کہ میں اپنے بعد حضرت عمرؓ کو خلیفہ بناتا ہوں۔ بعض حضرات نے عرض کیا کہ آپ حضرت عمرؓ جیسے سخت آدمی کو خلیفہ بنارہے ہیں۔ آپ خدا کو کیا جواب دیں گے؟ حضرت ابو بکرؓ نے فرمایا:”میں خدا سے کہوں گا کہ اے خدا میں نے تیری مخلوق پر اس شخص کو خلیفہ بنایا جو تیری مخلوق میں سب سے بہتر تھا۔“ذرا ٹھہر کر سوچئے جس شخص نے تیس سے زیادہ اہم مقامات پر اختلاف رائے کیا ہو وہی شخص خدا کی مخلوق میں سب سے بہتر اور افضل قرار پاتا ہے۔ کیا اس حسن اخلاق اور وسعتِ ظرف کی ایک مثال بھی تاریخ انسانی پیش کرسکتی ہے؟ سر براہانِ مملکت تو ایک اختلاف رائے ہی کی بنیاد پر اپنے وزیروں، مصاحبوں اوروفاداروں کو ہمیشہ کے لیے کوچۂگمنامی میں بھیج دیتے ہیں۔
یہ صرف حضرت ابوبکرؓ وعمرؓ ہی پر منحصر نہیں تمام صحابہؓ کا یہی حال ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ اور حضرت زید بن ثابتؓ میں بعض فقہی مسائل میں سخت اختلاف پایاجاتا ہے۔ مگر جب ان دونوں کی ملاقات ہوتی ہے تو زمین وآسمان حیران وششدر رہ جاتے ہیں۔ حضرت ابن عباسؓ دیکھتے ہیں کہ زید بن ثابتؓ سوار ہوکر کہیں جارہے ہیں تو آگے بڑھ کر ان کی رکاب پکڑ لیتے ہیں اور ان کی سواری کے ساتھ ساتھ پیدل چلتے ہیں۔ حضرت زیدؓ فرماتے ہیں:”اے ابنِ عم رسول! یہ آپ کیا کررہے ہیں، رکاب چھوڑیے مجھے شرمندہ نہ کیجئے۔“ حضرت ابن عباسؓ جواب دیتے ہیں کہ ہمارے لیے یہی حکم ہے کہ اپنے علماءاور بزرگوں کے ساتھ اسی طرح پیش آئیں۔یہ سن کر حضرت زید بن ثابتؓ فرماتے ہیں:”اے ابنِ عم رسول! ذرا اپنا ہاتھ بڑھائیے۔“ حضرت ابن عباسؓ اپنا ہاتھ بڑھاتے ہیں تو حضرت زید بن ثابتؓ فرطِ محبت میں اس کو چوم لیتے ہیں اور فرماتے ہیں:”ہمارے لیے یہی حکم ہے کہ آلِ رسول کے ساتھ اسی طرح پیش آئیں۔“
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اور حضرت عمرؓ کے درمیان بہت سے مسائل میں سخت اختلاف تھا۔ مثلاً حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نماز میں ہاتھ باندھتے تھے جب کہ حضرت عمرؓ ہاتھ باندھنے سے منع فرماتے تھے اور زانو پر ہاتھ چھوڑ ے رکھتے تھے۔ حافظ ابن قیمؓ کا بیان ہے کہ حضرت عمرؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے درمیان تقریباً سومسائل میں اختلاف تھا مگر اس اختلاف رائے کے باوجود محبت واحترام کا یہ حال تھا کہ ایک روز حضرت عمرؓ نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کو آتے دیکھا تو فرمایا:”علم وفقہ سے بھرا ہوا ایسا برتن ہے جس کی اہل قادسیہ بھی تعظیم کرتے ہیں۔“ دوسری طرف بھی محبت واحترام کا یہی حال ہے۔ حضرت عمرؓ کی وفات کے بعد حضرت ابن مسعودؓکی خدمت میں دوشخص آتے ہیں ان میں سے ایک عرض کرتا ہے کہ میں نے حضرت عمرؓ سے اس طرح پڑھا ہے۔ یہ سن کر حضرت ابن مسعودؓ روپڑتے ہیں۔ آپ کے آنسوؤں سے زمین پر پڑی ہوئی کنکریاں تر ہوجاتی ہیں۔ آپ اس شخص کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں:”تم اسی طرح پڑھا کو جس طرح تم کو حضرت عمرؓ نے پڑھایا ہے۔ وہ اسلام کا ایک ایسا مضبوط قلعہ تھے کہ لوگ اس میں داخل ہونے کے بعد نکل نہیں سکتے تھے۔ لیکن جب عمرؓ ہم سے جدا ہوگئے تو اس قلعہ میں شگاف پڑگیا۔“
دورِ صحابہؓ میں شدید اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کے ادب واحترام کے جذبات کارفرمارہے اور اختلافات کے باوجود صحابۂ کرامؓ اپنے لیے مشعلِ نبوت سے اس طرح اکتساب نور کرتے رہے کہ ان کے درمیان ایک کینہ بھی پرورش نہ پاسکا اور صحابہؓ کا یہ مقدس دور مسلمانوں کے لیے آج بھی مینارۂ نور بن کر ان کے ظلمت کدہ حیات کو منور کرنے کے لیے کافی ہے۔ کاش مسلمان اس سے روشنی حاصل کرسکیں۔
ائمۂ مجتہدین میں سخت اختلافات تھے۔ بعض فقہاءقرأت سے پہلے بسم اللہ پڑھنے کے قائل تھے۔ بعض اس کے قائل نہیں تھے، کچھ آہستہ سے پڑھتے تھے کچھ زور سے، بعض لوگ نماز فجر میں دعائے قنوت پڑھتے تھے، ایک گروہ قے کرنے، پچھنے لگوانے یا نکسیر پھوٹنے کو ناقص وضو سمجھتا تھا مگر دوسرے گروہ کے نزدیک یہ نواقضِ وضو نہ تھے۔ کسی کے نزدیک عورت کو چھودینے سے وضو ٹوٹ جاتا تھا مگر کسی کے نزدیک وضو نہ ٹوٹتا تھا۔ مگر ان اختلافات کے باوجود بھی وہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھتے تھے۔مثلاً امام ابوحنیفہؒ اور امام شافعیؒ وغیرہ بسم اللہ پڑھنے کے قائل تھے، مگر وہ مالکی علماءکے پیچھے نماز پڑھ لیا کرتے تھے۔ حالانکہ مالکی علماءسرے سے بسم اللہ پڑھا ہی نہیں کرتے تھے۔ امام ابویوسفؒ نے ہارون رشید کے پیچھے اس حالت میں نماز پڑھی کہ ہارون رشید نے پچھنے لگوانے کے بعد وضو کی تجدید نہیں کی تھی کیونکہ ان کے یہاں پچھنے لگوانے سے وضو نہیں ٹوٹتا جب کہ امام ابو یوسفؒ کے یہاں ٹوٹ جاتا ہے۔ ایک بار امام شافعیؒ نے امام ابوحنیفہؒ کے مقبرہ کے پاس نماز فجر ادا کی تو امام ابوحنیفہؒ کے ادب واحترام میں دعائے قنوت کو ترک کردیا حالانکہ دعائے قنوت پڑھنا ان کے نزدیک سنتِ مؤکدہ ہے۔ اس طرح اختلاف کے باوجود انہوں نے ایک دوسرے کے اقوال وافعال اور صلاحیت وعلمیت کا جس طرح اعتراف کیا ہے وہ ہم سب کے لیے بہترین اسوہ ہے۔












