ڈھاکہ: بنگلہ دیش کی ایک عدالت نے بدھ کو 15 اعلیٰ فوجی افسران کو پولیس کی حراست میں دے دیا، ان پر سابقہ حکومت کا تختہ الٹنے کا موجب بننے والی 2024 کی بغاوت کے دوران جبری گمشدگیوں اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق یہ پہلی مرتبہ ہے کہ بنگلہ دیش میں جبری گمشدگیوں کے معاملے پر باقاعدہ فردِ جرم عائد کی گئی ہے اور پہلی بار اتنی بڑی تعداد میں سینئر فوجی افسران کو ایک سول عدالت میں مقدمے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جبری گمشدگیوں کے مقدمے کا سامنا کرنے والوں میں 5 جرنیل بھی شامل ہیں، جن پر الزام ہے کہ انہوں نے معزول وزیرِاعظم شیخ حسینہ کے دورِ حکومت میں ایک خفیہ حراستی مرکز چلایا۔ تمام ملزمان یا تو فوجی انٹیلی جنس سے وابستہ رہے ہیں یا بدنام زمانہ نیم فوجی فورس ریپڈ ایکشن بٹالین (آر اے بی) میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ وکیل صفائی سرور حسین نے بتایا کہ تمام افسران نے الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔ فوج کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وہ عدالتی کارروائی میں مکمل تعاون کرے گی، تاہم اس ماہ کے آغاز میں وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کے بعد سے حالات کشیدہ ہیں۔ عدالت کے چیف پراسیکیوٹر تاج الاسلام نے صحافیوں کو بتایا کہ انہوں نے ملکی قانون کے احترام اور عدالتی عمل سے تعاون کا عزم ظاہر کیا، اور ان کے رویّے سے بھی یہ بات عیاں تھی۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ فولکر تُرک نے 15 اکتوبر کو جاری بیان میں کہا کہ یہ عدالتی عمل احتساب کی سمت ایک اہم قدم ہے، یہ متاثرین اور ان کے اہل خانہ کے لیے ایک معنی خیز لمحہ ہے۔ افسران کو ایک جیل وین کے ذریعے سخت سیکیورٹی میں عدالت لایا گیا، جہاں پولیس کی بھاری نفری تعینات تھی۔ وکیل صفائی سرور حسین کے مطابق یہ افسران اپنی بے گناہی پر پُر اعتماد ہیں اور انہیں یقین ہے کہ وہ قانونی طریقہ کار کے ذریعے بری ہوجائیں گے۔












