(سید مجاہد حسین)
بھارت میں جہاں رشی منی اور مہنتوں اور تپسویوں کی ایک تاریخ رہی ہے ۔ آج بے شمار لوگ نیک صفت اور نیک سیرت بابائوں سے لو لگائے رہتے ہیں اور ان کی بیش قیمتی نصیحتوں سے استفادہ کرتے ہیں ۔ وہیں ملک میں کچھ ایسے بابابھی ہیں جو نہ صرف اپنے عقیدت مندوں اور پیرو کاروں کی بھیڑ جمع کر کے پر وچن کے پروگرام تو کرتے ہیں لیکن اس کے پردے کی آڑ میں ان کا عمل کچھ اور ہی ہوتا ہے۔
وہ دوسروں کے عقیدے کے ساتھ نہ صرف کھلواڑ کرتے ہیں ،انکے ساتھ دھودہی کر کے ان کو اپنے جال میں پھنساتے ہیں بلکہ ان کے ساتھ گھنائو نے کام کر کے اپنی زندگی کو عیش و عشرت سے مزین کرتے ہیں۔ ۔شاید آسا رام باپو بھی انہی میں سے ایک بابا ہیں جنہیں آج عدالت نے عمر قید کی سزا سنائی ہے ۔آسارام پر اپنی شاگرد ہ کے ساتھ جنسی ہوس پوری کرنے کا الزام تھا ۔متاثرہ کے والدین نے اپنی بیٹی کو باپو کے آشرم میں تعلیم کے لئے بھیجا تھا لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ پجاری کے بھیس میں ایک درندہ اور وحشی صفت بابا اس لڑکی پر اپنی نظریں گاڑے بیٹھا ہے اور اس کو اپنی جنسی ہوس کا شکار بنناے کے فراق میں ہے ۔آج عدالت نے اس کیس میں اسی باباآسارام کو عمر قید کی سز اسنادی ہے۔آسارام کو یقین نہیں تھا کہ اسے اس اپنے پوشیدہ جرم کی پاداش میں اپنے انویائیوں کے درمیان سے بے ھد بے عزتی کے ساتھ پولس گرفتار کر لے جائے گی اور عدالت میں کھڑا کردے گی ۔کچھ سال پہلے ہی جس وقت آسارام کو گرفتار کیا گیا ،اس دوران اس کے اندور کے دربار میں اس کے چاہنے والوں کا ہجوم تھا ۔پولس کو اس کو گرفتار کرنے میں بڑی مشقت اٹھانا پڑی تھی۔اس سے قبل آسارام کیخلاف سال 2013کو احمد آباد کے چاند کھیڑا پولیس اسٹیشن میں ایک ایف آئی آر درج کی گئی تھی جس کے مطابق آسارام نے 2001 سے 2006 کے درمیان سورت میں مقیم خاتون کے ساتھ کئی بار عصمت دری کی، جب وہ شہر کے مضافات میں واقع موتیرا میں اپنے آشرم میں رہتی تھی۔ تبھی سے اس معاملے میں عدالت سنوائی کررہی تھی اور اس نے متاثرہ کے بیانات اور شواہد کی بنیاد پر پیر کو دس سال بعد اپنا فیصلہ سنایا ۔یہ دوسرا مقدمہ ہے جب آسارام کو عدالت نے عصمت دری کیس میں عمر قید کی سزا سنائی ہے ۔عدالت نے پیر کو آسارام کو اس معاملے میں مجرم قرار دیا تھااورفیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔بلا شبہ آسارام کی مقبولیت اور ان کی پاکدانی کو دیکھ کر یہ یقین کر پانا مشکل تھا کہ وہ اپنے پاکیزہ لباس میں اپنے پیروکاروں کو دھوکہ دے رہا تھا اور لوگوں کا بھروسہ جیت کر ان کی عقیدت سے کھلواڑ کررہا تھا۔ آسا رام کو شاید بھروسہ تھا کہ بڑے بڑے حکومتی عہدوں پر فائز عقیدت مندوں میں سے کوئی ناکوئی ضرور ان کا حامی وناصر نکل آئے گا اور پولس کے چنگل سے چھڑالے جائیگا ،لیکن کوئی پولس اور عدالت کی سختی کے سامنے کسی لیڈر اور بیوروکریٹ تک کی ایک نہ چلی ،یہاں تک کہ اس معاملے میں کئی گواہان تک کو قتل کر دیا گیا۔ااس لئے ان پولس اہلکاروں کی مستعدی اور احساس فرض شناسی بھی قابل داد وتحسین ہے کہ ان پر کسی کا بس نہیں چل سکا اور بابا کے مریدوں اورآقائوں کی کوئی دھمکی کام نہ آئی۔ اس کا مطلب یہی ہوا کہ اگر انتظامیہ اور حکومت سخت ہو تو مجرم کے تما م اثر رسوخ دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔اور وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچ جاتاہے ،یہاں تک کہ اس کا انجام برا ہوتا ہے ۔یہ اس وقت ممکن ہے جب سسٹم کرپشن سے پاک ہو ۔اب بھی آسارام کے جیسے نہ جانے کتنے ایسے خود ساختہ بابا ہیں جو بھولے بھالے لوگوں کو پر وچن کی آڑ میں ان کی آستھا سے کھلواڑ کرتے ہیں اور ان لوگوں کو اس بات کا احساس تک نہیں ہونے دیتے ،بات تب کھلتی ہے جب کافی دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ایسے ڈھونگی بابائوں پر شکنجہ کسنے کی ضرورت ہے تاکہ سماج برائیوں سے بچا رہے ۔لیکن تعجب اس امر پر ہے کہ بابا آسارام جیسے کچھ اور بابا گرمیت رام رحیم بھی ہیں جو ااج کل پیرول پر ہیں ،عدالت سے وہ بھی قتل اور عصمت ریزی کے مجرم ٹھہرائے جا چکے ہیں،اور عدالت سے سزا یافتہ ہیں،لیکن حکومت کی مہربانی کہئے کہ وہ پیرول پر گھوم رہے ہیں!۔بہر کیف ، آسارام کے ظلم کے شکار خاندان عدالت کے فیصلے کو انصاف کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے اور اطمینان کا اظہار کررہی ہے ۔ضروری ہے ایسے دیگر مجرموں پر بھی قانون کا شکنجہ سخت کیا جائے۔عدالت کے آج کے فیصلے سے لوگوں میں عدالت پر یقین پختہ ہو ا ہے ۔












