مرکزی شاہین باغ میں شہریت قانون کے خلاف جس تاریِخی دھرنے کا آغاز ہوا تھا اس نے دیکھتے ہی دیکھتے اپنا دائرہ کار پورے ملک میں بڑھا لیا تھا اس دھرنے کی اہمیت اس لئے بھی تھی کہ پہلی بار ملک کی مسلم خواتین سڑکوں پر آئی تھیں۔حالانکہ مرکزی سرکار نے اس دھرنے کو ختم کرانے کے لئے سوائے گفت و شنید کے سارے متشددانہ عمل کر ڈالے لیکن دھرنا ختم نہیں کرا سکی۔سپریم کورٹ نے بھی اس سلسلے میں اپنی کوشش کی لیکن دھرنا جاری رہا ،لیکن آخر کار جعفرآباد میں شدت پسندوں کی سازش کامیاب ہوئی اور وہاں ہندو مسلم فساد پھوٹ پڑا۔اور ساری دنیا نے اس خونی فساد کا براہ راست ٹیلی کاسٹ بھی دیکھا جس میں پولیس کا رول بھی سامنے آیا اور اس نے ایک فریق پر مظالم کی انتہا کر دی۔جیسا کہ اکثر ہوتا ہے اس فساد کے بعد بھی جعفرآباد ،سیلم پور مصطفے باد ،کھجوری وغیرہ کے سیکڑوں مسلم نوجوانوں کو پولیس نے جیل رسید کر دیا۔بات کورٹ تک پہنچی اور انکوائری کمیشن کا بھی تقرر ہوا۔ گرفتار شدگان دھیرے دھیرے رہا بھی ہونے لگے لیکن سنگین دفعات میں ملوث ابھی بہت سارے لوگ جیل میں ہی سڑ رہے ہیں۔اس سلسلے میں دہلی ہائی کورٹ کئی تنظیموں کے ذریعہ دائر کیس پر شنوائی بھی کر رہی ہے۔اسی شنوائی کے دوران ہائی کورٹ نے مرکزی حکومت سے بھی کچھ سوالات پوچھے تھے جس کا جواب جمعہ کو داخل کیا گیا ہے۔مرکزی حکومت نے دہلی ہائی کورٹ کے سامنے ایک حلف نامہ داخل کیا ہے جس میں کچھ (انسانی)حقوق گروپوں و دیگرکے مفادات والے طرز عمل کی مذمت کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ شمال مشرقی دہلی کے قتل عام 2020 کی تحقیقات کے لیے ‘ماورائے عدالت کمیشن’ قائم کیا گیا اور اس طرح کے بیانیے تیار کیے گئے ہیں جس سے’سماجی اور سیاسی بے چینی‘پیدا ہوسکتی ہے۔
دہلی اقلیتی کمیشن (ڈی ایم سی)، ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ اور شہریوں اور وکلاءکی پہل کے ذریعہ 2020 کے دہلی فسادات سے متعلق مختلف رپورٹوں کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کرنے والی مفاد عامہ کی عرضی (PIL) کی حمایت میں مرکزی حکومت کے ذریعہ داخل کردہ حلف نامہ میں یہ کہا گیا ہے کہ قانونی ویب سائٹ بار اینڈ بینچ کی رپورٹ کے مطابق، دھرمیش شرما نامی ایک وکیل کی طرف سے دائر کی گئی درخواست میں آئینی کنڈکٹ گروپ نامی تنظیم کی طرف سے قائم کردہ انکوائری پینل کو منسوخ کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس گروپ میں تقریباً 100 سابق سرکاری ملازمین اور ہندوستان میں انسانی حقوق کے معروف ترین محافظ شامل ہیں۔
فیکٹ فائنڈنگ رپورٹس نے تشدد کو ”مسلم مخالف نسل کشی“ قرار دیا اور مسلمانوں کے خلاف حملوں میں پولیس کی مداخلت سے پردہ اٹھایا۔اس جعلی، جھوٹے یا آدھے سچے حقائق کی بنیاد پر، یہ ‘پرائیویٹ اور ایڈیشنل جوڈیشل کمیشن’ قانونی انکوائری یا تفتیش کا بہانہ بنانے کے لیے شواہد اکٹھے کرنے اور ریکارڈ کرنے کے نام نہاد عمل میں داخل ہوتے ہیں اور ایسی مشق کو انجام دینے کے بعد۔ مکمل طور پر جانبدارانہ رپورٹنگ، جو زیادہ تر معاملات میں جرائم کی رپورٹنگ کے طور پر پائی جاتی ہے جس میں ایک پردہ پوشی کے طور پر کام کیا جاتا ہے اور حقیقی ملزم کو جرائم کے شکار کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ مرکزی حکومت نے کہا ہے کہ دہلی اقلیتی کمیشن کی رپورٹ نہ صرف دائرہ اختیار سے باہر ہے، بلکہ ‘فرضی’ بھی ہے، اور اسے ‘کچھ اور گھٹیا مقاصد’ والے لوگوں نے تیار کیا ہے۔ 134 صفحات پر مشتمل رپورٹ (اس وقت کے ) لیفٹیننٹ گورنر انل بیجل اور وزیر اعلی اروند کیجریوال کو سونپی گئی تھی۔
اس کیس کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس ستیش چندر شرما اور جسٹس سبرامنیم پرساد کی بنچ کو بتایا گیا کہ اسی طرح کے کیسوں کی ایک اور بنچ ہے۔لہٰذا عدالت نے معاملہ جسٹس سدھارتھ مردول کی سربراہی والی بنچ کو منتقل کر دیا۔
بار اور بنچ نے بتایا کہ کیس کی سماعت اب 10 فروری کو ہوگی۔ یعنی معاملہ ابھی بھی کنٹرول سے باہر ہے اور مرکز و ریاست کی سرکار آپس میں ہی الجھی ہوئی ہیں اور اس دوران ملزمان سمیت ان کے گھر والے در در کی خاک چھان رہے ہیں۔












