کسی بھی ملک کا بجٹ ملک کی معیشت ملک کے حال اور مستقبل کے مسافت کا ہدف طئے کرتا ہے جسمیں یہ عیاں ہوجاتا ہے کہ ملک آئندہ دنوں میں ترقی کے منازل تک رسائی کرے گا یا تنزل کی طرف جھکتا جائے گا بلکہ یہاں تک بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہیکہ عام بجٹ عام آدمی کیلئے سوغات ثابت ہوتا ہے یا بربادی کا روپ ڈھالیتا ہے دراصل بجٹ حاشیہ کا وہ کنارہ ہوتا ہے جس میں توازن برقرار رکھنا انتہائی اہم ہوتا ہے اسکے برعکس اگر توازن نہ رکھا جائے تو یہی بجٹ حاشیے کے آگے کنواں اور پیچھے کھائی کے مترادف بن جاتا ہے اکثر یہی صورتحال گذشتہ سالوں کے بجٹ میں دیکھنے کو ملی ہے ہر بار عام بجٹ عام عوام کیلئے گلے کی ہڈی کی طرح ثابت ہوا ہے بد سے بدتر حالات میں بھی عام بجٹ کی حالت دگرگوں رہی تھی کیونکہ ہر بار بجٹ کی کیفیت ایک ہی سمت پر رواں دواں رہی صرف اعداد و شمار کے الٹ پھیر کیئے جاتے رہے ملک کی معیشت کی طاقت و کمزوری کو سالانہ پیش ہونے والاعام بجٹ ظاہر کردیتا ہے کہ ملک کس مقام پر کھڑا ہے ملک کی معاشی حالت چاہے کچھ بھی ہو اسکی زمہ دار صرف اور صرف حکومت ہوتی ہے۔
ہر سال کی طرح امسال یکم فروری کو مرکزی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے حکمران جماعت کانواں اور آخری بجٹ سال 24-2023 کے عام بجٹ کی سرخ گھٹری میں خاص افراد و انتخابی بجٹ کے سوغات کے طور پر پیش کیاگیا ہے کیونکہ اس بجٹ میں عام آدمی کیلئے کوئی راحت بخش ثابت نہیں ہوسکا حکومت کے بڑے بڑے دعوؤں اور خوابوں کی دنیا سے سجے اس بجٹ کو وزیر خزانہ نے امرت کال قرار دیا اور لوک سبھا میں کئی ایک دعوؤں کی دھواں دار بارش بھی برسائی جسکا جواب میز تھپتپھاکر دیا گیا مودی حکومت کے نو سالہ دور اقتدار میں یہ پہلا ایسا بجٹ ہے جسمیں ٹیکس کی جانب حکومت کا رتی برابر جھکاؤ نظر آیا ورنہ حکمرانی کے روز اول سے یہی ہورہا تھا کہ عام عوام پر ٹیکسس کا سیلاب امڈ کر آرہا تھا اب حکومت کی یہ کونسی حکمت عملی ہے جسمیں حکومت سات لاکھ تک کی سالانہ آمدنی پر ٹیکس عائد نہیں کرے گی اگر چہ یہی صورتحال پہلے بھی تھی لیکن پانچ لاکھ کی حد کو سات لاکھ کے ہندسے تک کردیا گیا وہ بھی اس شرط کی بنیاد پر یعنی حکومت کی جانب سے 2020 میں متعارف کردہ نیا ٹیکس این ٹی آر کا جو استعمال کرے گا انھیں صفر ٹیکس کی معافی رہی گی اب اس سے ملک کی عوام کا کتنے فیصدتناسب استفادہ حاصل کرے گا حکومت یہ بھی واضح کرتی تو سوال کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی خیر یہ پیٹھ تھپتھپانے والا کوئی بڑا کارنامہ نہیں ہے لیکن یہ عام بجٹ کے ساتھ ساتھ خاص بجٹ ضرور ہے وہ اسلیئے کہ اس بجٹ کو حکومت نے انتخابی بجٹ کے طور پر پیش کیا ہے وہ اس لیئے کہ بی جے پی کے سرکردہ قائدین مودی جی سے لیکر وزرائیہ کہتے نہیں تھک رہے ہیں کہ اس بجٹ سے ہر ایک کو یعنی کسانوں ,نوجوانوں ، تعلیم روزگار کو بھی فائدہ پہنچنے کے بلند بانگ دعوے کیئے جارہے ہیں جو صرف زبانی جمع خرچ کے مترادف ہے اگر اعداد و شمار کے لحاظ سے دیکھا جائے تو قلعی کھل جائے گی کیا صرف سات لاکھ کی آمدنی کے ٹیکس کو صفر کرنے سے ملک ترقی پذیر ہوجائے گا؟کیا صرف نوجوانوں میں مہارت پیدا کرنے یا "امرت پیڑی” کا نام دے دینے سے روزگار مل جائے گا؟نہیں بلکہ یہ سب سیاسی حربے ہیں کہا جارہا ہیکہ سات لاکھ کی آمدنی میں درمیانی آمدنی و سرکاری ملازمین کو پر کشش بنانے کیلئے حکومت نے اس ٹیکس فری کا اعلان کیا ہے جو وزیر اعظم اپنی زبان سے دو کروڑ نوکریوں کا اعلان کرتے ہیں پھر مکر کر پچھلے بجٹ میں 60 لاکھ نوکریوں کا اعلان کرتے ہیں پھر بھی وعدہ وفا نہ ہوسکا اور اب تو حد ہوگئی کہ نوجوانوں کو صرف ہنر مند بنانے کا اعلان کیا جاتا ہے ہم یہ کھل کر کہہ سکتے ہیں کہ بے روزگاری کا ڈھلتا سورج 2024 کےلوک سبھا انتخابات کیلئے مودی حکومت کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے۔
ملک میں بے روزگاری کے تناسب میں ہر روز اضافہ ہورہا ہے سال 2021 میں ملک میں بے روزگاری کا کل تناسب 7.1تھا ابھی انڈین اکنامک مانیٹرنگ سنٹر کے اعداد وشمار کے مطابق ملک میں بے روزگاری کی شرح دسمبر2022 میں بڑھ کر 8.30 فیصد پر پہنچ گئی جو پچھلے مہینے میں 8.00 فیصد تھی اگر بے روزگاری کا تناسب ایسے ہی آسمان چھوتا رہا تو ملک کہاں سے ترقی کرےگا؟اس بجٹ نے مہنگائی کے معاملہ میں عام عوام کو چت کردیا اور مہنگائی کو تقویت بخشی اشیا کا سستی اور مہنگی کرنا ہر بجٹ کا ایک اہم حصہ ہوتا ہے لیکن عام آدمی کے کام آنے والی مہنگی اشیائ پر قابو پانا ہی نرالے بجٹ کی نشانی ہوتی ہے لیکن حکومت کی جانب سے نہ ایندھن کی قمیت میں کوئی کمی ہوئی نہ ہی اشیائے ضروریات میں بلکہ حکومت کا یہ معاملہ ہمیشہ سے رہا ہے نہ پہلے کسی بجٹ میں دیکھنے کو ملا نہ اس بار ,بطور خاص اس بجٹ میں جو ناروا سلوک اقلیتوں سے کیا گیا وہ بھی اہمیت کا حامل ہے اس سال اقلیتوں کیلئے صرف 3097 کروڑ روپیئے مختص کیئے گئے حالانکہ پچھلے سال اقلیتوں کیلئے 5020 کروڑ کا بجٹ مختص کیا گیا تھا ایک ہزار 923 کروڑ روپیوں کی بھاری کٹوتی کی گئی مودی حکومت اقلیتوں کے ساتھ ہمدردی کی جو دوہای دیتی رہتی ہے اگر اسکا کچھ حصہ بھی باقی رہتا تو بجائے بجٹ کو پچھلے سال سے مزید اضافہ کرتی نہ کہ کم حکومت نے کھل کر اقلیتوں کے بجٹ میں جو کمی ہے حکومت کی جھوٹی ہمدردی کا دعوی کھوکھلا ثابت ہوا جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہیکہ مودی حکومت نہ سب کا ساتھ چاہتی ہے نہ وکاس اور نہ ہی وشواس جیتنا چاہتی ہے قرض میں لت پت مودی حکومت بجٹ کا بے جا اصراف تو زور و شور سے کرتی آرہی ہے لیکن ملک کی عوام بالخصوص اقلیتوں پر نچھاور کرنے سے گریز کرتی ہے۔
اس عام بجٹ کی خاص بات جو رہی ہے وہ ہے صدر جمہوریہ ہند دروپدی مرمو کا خطبہ ایک بات تو یہ طئے ہیکہ عام بجٹ عام آدمی کی سمجھ سے باہر ہوتا ہے جسکا مودی حکومت نے شاطرانہ طور پر خاطر خواہ فائدہ بھی اٹھایا ہے کیونکہ عام آدمی کی نظر اعداد و ہندسوں پر نہیں ہوتی بلکہ بیان بازی سے وہ شکنجہ میں پھنس جاتا ہے جیسا کہ صدر جمہوریہ ہند مرمو جی نے اپنے خطبہ کے دوران مودی حکومت کی تائید میں جو خطاب کیا ہے یہ در اصل ملک کی اکثریت کو پر کشش بنانے کے مترادف ہے صدر جمہوریہ ہند نے مودی حکومت کو طاقتور کے طور پر پیش کرکے بتایا ہے جسطرح جموں و کشمیر سے دفعہ 370 کو برخواست کیا گیا طلاق ثلاثہ پر قانون بنایا جانا رام مندر کا بڑے پیمانے پر تعمیر کیا جانا مغلیہ دور کے راشٹر پتی بھون میں موجود مغل باغ کا نام تبدیل کرتے ہوئے امرت ادھیان کردینا یااسکے علاوہ دیگر اہم فیصلے مودی حکومت بے باک طریقہ سے لیتی ہے دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے سرجیل اسٹرائیک ,دشمنوں سے مقابلہ کیلئے پوری طاقت سے جواب دینے کیلئے ہمیشہ تیار رہنا سوال یہ ہیکہ اگر یہاں پر مودی حکومت طاقتور ہے تو بجٹ میں کیوں نہیں؟بے روزگاری کو کم کرنے اور مہنگائی پر قابو پانے کیلئے مودی حکومت کیوں کمزور ثابت ہورہی ہے؟ صدر جمہوریہ نے یہ بھی کہا کہ مودی حکومت کی جانب سے ان نو سالہ عرصہ میں پہلی بار تاریخ ساز فیصلے اورکئی مثبت تبدیلیاں آئی ہیں ایسا لگ رہا تھا کہ صدر جمہوریہ کا خطبہ حکمران جماعت کے ایجنڈے کی بھر پور نمائندگی کررہا تھا جس میں حکومت کا کوئی بھی منفی پہلو اجاگر نہیں گیا اور نہ ہی عام آدمی کو راحت دلوانے کی کوئی بات سامنے آئی سوال یہ بھی ہیکہ کیا صدر جمہوریہ کے خطبہ میں جو باتیں آئی ہیں کیا وہ بجٹ کا حصہ ہونا چاہیئے تھا؟بلکہ یہ کہا بھی جائے تو غلط نہ ہوگا کہ حکومت کی جانب سے یہ عام بجٹ نہیں بلکہ انتخابی بجٹ کا حصہ تھا۔












