انقرہ،ترکوں کی طرح سیکڑوں شامی خاندان اپنے بچوں کی قسمت جاننے کے لیے ترکی کے متعدد شہروں میں انتظار میں ہیں۔ یہ وہ شامی شہری ہیں جن کا رابطہ 6 فروری پیر کے روز زلزلہ آنے کے بعد ان کے پیاروں کا رابطہ منقطع ہوگیا تھا۔ اب یہ لوگ ترکی کی سڑکوں پر سرگرداں ہیں۔ ترکی کے مختلف شہروں میں زلزلہ آیا ، ان شہروں میں شام سے ہجرت کرکے آنے والے افراد بھی موجود تھے۔ زلزلہ کے بعد ان شامی مہاجرین کی صورت حال کیا ہے؟زلزلے سے ہونے والے نقصان کی حد ایک خطے سے دوسرے علاقے میں مختلف ہوتی ہے۔ ترکی کے جنوب مغرب میں تباہی بڑے پیمانے پر دکھائی دیتی ہے۔ انطاکیہ شہر میں زیادہ نقصان نظر آرہا ہے۔ یہاں زلزلہ کے نتیجے میں کئی شامی خاندان پورے جاں بحق ہوگئے۔ دیگر شامی خاندان ملبے تلے دبے اپنے بچوں کو نکالے جانے کا انتظار کر رہے ہیں۔ ان افراد نے ’’العربیہ ڈاٹ نیٹ‘‘ کو بتایا کہ انطاکیہ اور مضافات میں بڑی تعداد میں شامی اپنے پیاروں کی تلاش میں ہیں۔ایک شامی پناہ گزین جس کا تعلق ادلب کے دیہی علاقوں سے ہے اور وہ برسوں سے انطاکیہ میں مقیم ہے نے بتایا کہ انطاکیہ اور اس کے اطراف سب سے زیادہ متاثرین شامیوں کا حصہ ہوسکتے ہیں۔ اس لیے کہ یہ شہر شام کی سرحد کے قریب ہے اور برسوں پہلے جنگ کے نتیجے میں لاکھوں لوگوں نے وہاں پناہ لی تھی۔انھوں نے بتایا کہ ان میں سے زیادہ تر پرانے مکانات میں رہ رہے تھے جن کی مرمت کی ضرورت تھی۔ پہلی بار آنے والے زلزلے کی شدت اور اس کے بعد آنے والے آفٹر شاکس سے ان کے گھر ملبے میں تبدیل ہو گئے ہیں۔جہاں پر پورے خاندان ہی جاں بحق ہوگئے یہ لطاکیہ کے دیہی علاقے ہیں۔ بہت سے شامی خاندان ملبے کے نیچے دبے لوگوں کی قسمت جاننے کے منتظر ہیں کہ شاید ان کے خاندان کے کچھ افراد زندہ بچ جائیں۔اب تک ایسا لگتا ہے کہ انطاکیہ اور اس کے گردونواح میں رہنے والے شامی خاندان زلزلے سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔’’العربیہ ڈاٹ نیٹ ‘‘نے ان میں سے متعدد سے رابطہ کیا اور ان میں سے بیشتر نے ان رشتہ داروں کی موجودگی کی تصدیق کی جن سے رابطہ منقطع ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ وہ ملبے کے نیچے ہیں۔ دوسروں نے ریسکیو ٹیموں کے بارے میں بھی بات کی کہ اہلکاروں نے ملبے تلے دبے بہت سے لوگوں کو بچا لیا ہے۔انطاکیہ کے مضافاتی علاقے میں رہنے والے ایک شامی شخص نے بتایا کہ امدادی ٹیمیں میرے بیٹے کو بچانے میں کامیاب ہوئیں۔ جس عمارت میں میں رہ رہا تھا گرنے کے ایک دن بعد اسے نکالا گیا۔ اس کی ہڈی میں فریکچر ہونے کی وجہ سے اسے علاج کے لیے ہسپتال لے جایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا جس چیز نے بیٹے کے بچنے میں کردار ادا کیا وہ اس عمارت کا ایک منزلہ ہونا بھی تھا۔ترکی کے متاثرہ علاقوں میں مقیم زیادہ تر شامی ڈیزاسٹر اتھارٹی کی جانب سے قائم کردہ پناہ گاہوں میں منتقل ہو گئے۔ دیگر نے اپنی بسوں کو محفوظ پناہ گاہ میں تبدیل کر لیا ہے۔ شامی مہاجرین پرہجوم علاقوں سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ بہت سے افراد خالی پارکوں میں پہنچ گئے۔ بہت سے دیگر عمارتوں سے دور چوکوں میں پہنچ گئے ہیں۔ پہلے سے تیار کردہ مراکز میں سے ایک مرکز میں مقیم ایک شامی پناہ گزین نے بتایا کہ امداد شامیوں اور ترکوں کے درمیان یکساں طور پر فراہم کی جاتی ہے، لیکن کچھ میئر ایسے ہیں جو کچھ علاقوں میں ڈیزاسٹراتھارٹی کی جانب سے مصیبت زدہ لوگوں کے لیے بھیجے گئے سامان کو جان بوجھ کر بعض علاقوں میں کرایہ پر دے رہے ہیں۔ایک اور شامی پناہ گزین نے بتایا کہ خیمہ کرایہ پر لینے کی قیمت تقریباً 150 ڈالر ہے۔ خاص طور پر ان علاقوں میں جو زلزلے سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ ایک اور پناہ گزین نے مختلف کھانے کی اشیاء کے ساتھ پناہ گاہ کے لیے خیمہ حاصل کرنے پر اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پناہ گاہوں میں لوگوں کی بڑی تعداد کسی حد تک ناقص تنظیم کا باعث بنی ہے۔ شامی باشندوں کی صورت حال ایک شہر سے دوسرے شہر میں مختلف ہے۔انطاکیہ اور اس کے نواحی علاقوں اور معرش اور ان کے قریبی علاقوں میں ایسے افراد بہت کم ہیں جو اپنے کسی پیارے کے ملبے کے نیچے سے زندہ نکلنے کے منتظر ہوں۔ ان دو شہروں میں تباہی زیادہ آئی ہے۔ دیگر علاقوں میں ایسے بہت سے شامی ہیں جنہیں اپنے پیاروں کے بچنے کی امید ہے۔ اگرچہ دیار بکر اور اورفا میں رہنے والے شامی باشندے اپنے گھر بار چھوڑ کر پناہ گاہوں میں چلے گئے ہیں۔ تاہم کچھ نے مزید زلزلہ کے جھٹکوں سے بچنے کے لیے کاروں اور بسوں میں رہنے کو اختیار کر رکھا ہے۔متعدد شامی پناہ گزینوں نے بتایا کہ ہم کسی بھی نئے زلزلے کے خوف سے اپنی بسوں کا انتظار کر رہے ہیں اور عمارتوں سے دور ہٹ کر رہنا ہی ہمارے پاس بہترین اور واحد حل ہے۔