ان دنوں مرکزی حکومت کی سیاسی حکمت عملی کا ہر راستہ مسلمانوں کی طرف جاتا ہے۔ اسلامو فوبیا کی شکار موجودہ حکومت نے اب ایک بار پھر بڑے پیمانے پر اسکولی نصاب میں تبدیلی کر رہی تاکہ مسلمانوں کا ذکر کتابوں میں بھی باقی نہ رہے۔خبر کے مطابق سینٹرل بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن (سی بی ایس سی) نے 12 ویں جماعت کی تاریخ کی کتاب سے مغل سلطنت کا احاطہ کرنے والے باب کو نکالنے کا فیصلہ کیا ہے جسے اترپردیش ایجوکیشن بورڈ بھی نافذ کر رہا ہے۔انڈین خبررساں ادارے پی ٹی آئی کے مطابق ایک اعلیٰ عہدیدار نے بتایا کہ مرکز اور ریاست کے لیے اعلیٰ مشاورتی ادارے ’این سی ای آر ٹی‘ نے تاریخ کے نصاب پر نظر ثانی کی ہے اور 12ویں جماعت کے لیے قرون وسطیٰ کی تاریخ کی نصابی کتابوں سے ’کنگز اینڈ کرانیکلز‘ اور ’دی مغل کورٹس‘ کے ابواب کو خارج کر دیا ہے۔واضح رہے کہ ’این سی ای آر ٹی‘ کی تیار کردہ نصابی کتابیں ملک کی تمام ریاستوں کے ان ا سکولوں میں پڑھائی جاتی ہیں جہاں امتحان ’سی بی ایس سی‘ کی جانب سے لیا جاتا ہے۔
اتر پردیش کے سرکاری اسکول بھی ’این سی ای آر ٹی‘ کی 12ویں جماعت کی تاریخ کی نئی نصابی کتابوں کو اپنائیں گے جس میں سے مغل دربار کے متعلق حصے ہٹا دیے گئے ہیں۔یہ تبدیلیاں کئی سطح پر کی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر 12ویں کلاس کی پولیٹیکل سائنس (علم سیاسیات) کی کتابوں پر بھی نظر ثانی کی گئی ہے۔ ’مقبول تحریکوں کا عروج‘ جس میں ہندوستان میں سوشلسٹ اور کمیونسٹ پارٹیوں کے عروج کے بارے میں ذکر ہے اور ’ایک پارٹی کے غلبہ کا دور‘ یعنی آزادی کے بعد کے دور میں کانگریس کی حکمرانی کے بارے میں ابواب کو ہٹایا گیا ہے۔
درسی کتابوں میں تبدیلی کوئی نئی چیز نہیں ہے اور ہر دہائی میں کتابوں میں ترمیم و اضافے ہوتے رہتے ہیں لیکن فی الحال جس طرح سے مذہبی بنیاد پر سیاست کی جا رہی اس کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ سارا کھیل مسلمانوں اور اسلام سے حد درجہ نفرت پر مبنی ہے۔اس سے قبل سنہ 2017 میں مغربی ریاست مہاراشٹر کے ایک نصاب سے مغلوں کی تاریخ کو ہٹا دیا گیا تھا۔
سی بی ایس سی کی جانب سے کہا گیا ہے کہ این سی ای آر ٹی کی تیار کردہ نئی نصابی کتابیں رواں سال سے ہی تعلیمی پروگرام کا حصہ ہوں گی۔
نصاب کی اس تبدیلی کی ضرورت موجودہ سرکار کو اس لئے بھی ہے کہ اس کی خود ساختہ ناگپوری تاریخ کے مطابق اس ملک پر ہردور میں ہندوؤ ں نے حکومت کی ہے اور نہرو کی سازش کے تحت آزادی کے بعد ملک کی تاریخ میں مسلم حکمرانوں کا نام شامل کیا گیا اور ملک کی نادرو نایاب ثقافت اور تہذیب کو ان مسلمانوں کے نام کر دیا گیا جن کا اس ملک میں کوئی وجود ہی نہیں تھا۔شہروں اور عمارتوں کے ناموں کو تبدیل کرنے کا جو ابھیان چل رہا ہے وہ بھی اسی سوکچھتا ابھیان کا حصہ ہے جس کا آغاز مودی جی نے 2014سے ہی اعلان کر کے کیا تھا۔تاریخ کی تبدیلی کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ ہمارے بچے جنگ و جدل کی دیسی کہانیاں پڑھنے سے بچ جائینگے۔دوسری طرف 711عیسوی (محمد بن قاسم کی سندھ میں آمد)سے 1857عیسوی (بہادرشاہ ظفر کی گرفتاری )تک کے کم وبیش ساڑھے گیارہ سو برس تک کی تاریخ پڑھنے سے بھی ہمارے بچے محفوظ رہیںگے۔
اب یہ سرکار کا مسئلہ ہے کہ وہ اس دوران کون سی تاریخ پڑھائیں۔ پڑھائیں یا نہ پڑھائیں۔ کیا بغیر تاریخ پڑھے ہماری نئی نسل وشو گرو نہیں بن سکتی ؟یقینا بن سکتی ہے۔اب اگر فکر کرنی بھی ہوگی تو راجپوتوں کو کہ کہ ان کے مہارانا پرتاپ کس کے خلاف لڑتے رہے؟مراٹھیوں کو بھی شیواجی مہاراج کی گورو گاتھا سے پرہیز کرنا ہوگا کیونکہ شیواجی کی ساری خوبیاں تو جب سامنے آئینگی جب اورنگ زیب سامنے ہوگا۔یہاں تو مغل پوری طرح غائب ہیں اورنگزیب تو خاص طور پر۔سکھوں کو بھی سوچنا ہوگا کہ وہ اب گرو تیغ بہادر کی شہادت کا ذکر کیسے کریںگے جبکہ اورنگزیب نام کا کوئی بادشاہ تو ہے ہی نہیں۔مذاق سے الگ ان سر پھروں کی سمجھ میں یہ بات پتہ نہیں کیوں نہیں آ رہی ہے کہ یہ سارے ہتھیار اوچھے ہیں۔تاریخ کسی ایک ملک کی وراثت نہیں ہوتی جسے ضائع کر کے یہ سمجھ لیا جائے کہ اب ہماری بزدلی کی داستان غائب ہو گئی۔انگریزی سلطنت کو ملک سے اکھاڑ پھینکنے والوں کے اسمائے گرامی انگلینڈ میں بھی موجود ہیں۔اوروہاں یہ بھی درج ہے کہ جب پورے ملک کے لوگ انگریز دشمنی پر آمادہ تھے تب بھارت کے وہ کون لوگ تھے جو انگریزوں کے ساتھ کھڑے تھے۔
آئینہ صاف کرنے سے چہرےپر پڑے گرد صاف نہیں ہوا کرتے۔انہیں یہ کون سمجھائے کہ تاریخ نہ پڑھانے سے بدل نہیں جاتا۔وہ تو ہمیشہ موجود رہتاہے۔مودی اینڈ کمپنی کے افراد اگر پڑھے لکھے ہوتے تو ان کو میں 14سو سالہ اسلامی تاریخ پڑھنے کا مشورہ دیتا۔انہیں کہتا کہ جس اسلام کی شمع کو تم بھارت کی سرزمین سے بجھا دینا چاہتے ہو یہ نا ممکن ہے۔نہ مغل اسلامی سلطنت کے نمونہ تھے نہ لودھی اور نہ خلجی ،غلام اور سید خاندان کے لوگ۔یہ سارے بادشاہ تھے اور ان کا طریقہ عبادت اسلامی تھا۔لیکن انہوں نے جس طرح حکومت کی وہ عام بادشاہوں والی اور اس کا تعلق اسلام سے قطعی نہیں تھا۔لیکن اس کے باوجود یہ دوست دشمن سب تسلیم کرتے ہیں کہ ان ساڑھے گیارہ سو سال تک بھارت پوری دنیا کےلئے سونے کی چڑیا بنا رہا لیکن جیسے ہی ان حکمرانوں کا زوال ہوا ہمارے ملک سے ترقی و خوشحالی کا بھی زوال ہو گیا۔