پٹنہ :مشہور اموی خلیفہ یزید بن معاویہ کا ایک عربی شعر ہے ؎ولکن بکت قبلی فہیج لی البکابکاہا فکان الفضل للمتقدم مولانا عبد السمیع جعفری صادقپوری رحمہ اللہ کی شخصیت محتاج تعارف نہیں۔ آپ کے تعارف کے لئے صرف اتنا کافی ہے کہ آپ کی نسبت ”صادقان صادقپور“سے ہے۔لیکن آپ نے اپنی اس عظیم نسبت اور خاندانی وجاہت ہی پر تکیہ نہیں کیا، بلکہ اپنے بزرگوں کی روش کو اختیار کرتے ہوئے اپنی زندگی کو دعوت وعزیمت، تعلیم وتدریس، تزکیہ نفس اور بہادری وحوصلہ مندی سے مزین کیا۔ آپ رياست بہار ہی نہیں بلکہ ہندوستان کے طول وعرض میں دینی لحاظ سے اتھارٹی کی حیثیت رکھتے تھے۔ اللہ نے آپ کو نوع بہ نوع کی صلاحیتیں دے رکھی تھیں۔ بولتے بھی تھے۔ لکھتے بھی تھے۔ اورمدمقابل سے باتوں کو منوانے کی صلاحیت بھی رکھتے تھے۔ ایک ایسا بھی وقت تھا کہ مسلمانان بہار ”امارت اہلحدیث صادقپور“ کے اعلان کے بغیر عید،بقرعید اور رمضان کی ابتدا نہیں کرتے تھے۔ مولانا جعفری خاندان صادقپور کے ایسے آخری چراغ تھے، جن میں سر تا پا اپنے خاندان کا عکس ونقش پایا جاتا تھا۔ شریعت سے لیکر سیاست کے گلیاروں تک کی آپ کو واقفیت تھی۔ مشکل وقتوں میں آپ امت کی بہتر رہنمائی کرتے تھے۔ باطل سے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ اذیتیں برداشت کیں مگر حق کی ترجمانی سے باز نہ آئے۔مولانا سے میری ملاقات دومرتبہ ہوئی۔ پہلی دفعہ جامعہ امام ابن تیمیہ میں، جب میں طالب علم تھا۔ مولانا کی تقریر فجر کی نماز کے بعد شروع ہوئی تو کلاس شروع ہونے سے کچھ دیر قبل ختم ہوئی۔ معلومات کا سیلاب تھا جو تھمنے کا نام نہیں لیتا تھا۔ زندگی کے تجربات اور حقائق سے طلبہ اور اساتذہ کو روشناش کرانا چاہتے تھے۔ دوسری ملاقات سال 2012 میں ان کی رہائش گاہ پٹنہ میں ہوئی۔ یہ ملاقات اصل تھی۔ تقریبا ایک گھنٹہ کی اس ملاقات میں میرے اور ان کے علاوہ کوئی تیسرا نہیں تھا۔ مولانا نے اس ملاقات میں اپنی زندگی کا نچوڑ اور خلاصہ میرے سامنے رکھ دیا۔ ان کی زندگی میں اتار چڑھاؤ، خوشی غم،دوستوں کا تعاون اور دشمنوں کی عیاری و مکاری بھی تھی۔ان کی باتوں کے سننے کے بعد میرے ذہن میں علامہ اقبال کا یہ شعر آیا ؎ہزاروں سال نرگش اپنی بے نوری پر روتی ہےبڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میںج دیدہ ور پیدامبارک باد کے مستحق ہیں ہمارے فاضل دوست انظار احمد صادق جنہوں نے پوری محنت اور علمی امانت کے ساتھ مولانا عبد السمیع جعفری کی حیات وخدمات کو اپنے قلم سیال کے ذریعہ منظر عام پر لانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ عین ممکن ہے کہ ہمارے فاضل دوست کے بعد کسی اور کو بھی مولانا کی زندگی پر لکھنے کی تحریک ملے، لیکن اولیت کا جو سہرا انظار احمد صادق کو حاصل ہوچکا ہے اس کا پانا اب کسی کی قسمت میں نہیں۔ اسی لئے میں نے یزید بن معاویہ کا یہ شعر پڑھا تھا ؎ولکن بکت قبلی فہیج لی البکابکاہا فکان الفضل للمتقدم(مجھ سے قبل اس کے رونے نے مجھے بھی رونے پر آمادہ کردیا، لیکن اولیت تو اسے ہی کو حاصل ہے) جہاں تک کتاب کی بات ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ جناب انظار احمد صادق قلم وقرطاس کے میدان کے پرانے کھلاڑی ہیں۔ اس سے قبل بھی کئی ایک کتابیں ان کے قلم سے منظر عام پر آکر داد تحسین حاصل کرچکی ہیں۔ اس لئے یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ جس طرح مصنف کی ذات میں ٹھہراؤ، استحکام، سادگی اور شیرینی ہے اسی طرح ان کے قلم میں بھی ٹھہراؤ، استحکام اور الفاظ وجملے کا حُسن پایا جاتا ہے۔ میری ان باتوں کا اندازہ اس وقت ہوگا جب آپ ان کی تحریروں اور کتابوں کو پڑھیں گے۔ہر صاحبِ شوق کو اس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہئے،اپنی لائبریری کی زینت بنانی چاہئے خاص طور سے علماء اور طلبہ کو اس کتاب کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ وہ مولانا جعفری کی خوبیوں سے آگاہی حاصل کرسکیں،اور اپنے آپ کو اس کے سانچے میں ڈھال سکیں۔ اللہ تعالی مصنف اور ان کے قلم کی حفاظت فرمائے۔آمین












