ترکیہ نے انتہائی دائیں بازو کی اپوزیشن جماعت کے سربراہ کو سوشل میڈیا پر پناہ گزینوں کی مخالفت میں پوسٹس کرنے اور عوام کو تشدد پر اکسانے کے الزام میں گرفتار کر لیا ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق تارکین وطن کو پناہ دینے کی مخالفت کرنے والی جماعت ’وکٹری پارٹی‘ کے سربراہ اومیت اوزداغ کو پولیس نے پیر کے روز تحقیقات کی غرض سے حراست میں لیا تھا۔
اومیت اوزداغ پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے ایک روز قبل اپنی تقریر میں صدر رجب اردوغان کی توہین کی ہے۔
ترکیہ کے سکی ریزورٹ میں واقع ہوٹل میں آتشزدگی سے 76 افراد ہلاک، 51 زخمی
استنبول چیف پبلک پراسیکیوٹر کے دفتر نے اومیت اوزداغ کو صدر کی توہین کے الزام میں رہا کر دیا تھا لیکن ساتھ ہی ’عوام کو نفرت اور مخالفت پر اکسانے‘ کے الزام میں گرفتاری کے احکامات جاری کر دیے تھے۔
پارٹی کا کہنا ہے کہ پراسیکیوٹر نے اومیت اوزداغ کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر کی گئی 11 پوسٹس ثبوت کے طور پر پیش کی ہیں۔پراسیکیوٹر کے دفتر نے گزشتہ سال ترکیہ کے وسطی صوبہ قیصری میں شامی پناہ گزینوں کی مخالفت میں ہونے والے فسادات کا ذمہ دار بھی اومیت اوزداغ کو ٹھہرایا ہے۔
صوبہ قیصری میں ہونے والے فسادات میں شامی پناہ گزینوں کے سینکڑوں گھروں اور کاروباروں پر حملے کیے گئے تھے۔
استنبول کے میئر اکرم امام اوغلو اور آئندہ انتخابات میں صدر اردوغان کے ممکنہ حریف نے اومیت اوزداغ کے گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے ایکس پر لکھا ’ہر ایک جانتا ہے کہ یہ عدلیہ میں سیاسی مداخلت ہے۔‘
اکرم امام اوغلو ترکیہ کی بڑی اپوزیشن جماعت کے رکن ہیں جنہیں 2022 میں الیکٹورل بورڈ کے اراکین کی توہین کا مرتکب ٹھہرایا گیا ہے تاہم اپیل کورٹ سے سزا برقرار رہنے کی صورت میں وہ دو سال تک سیاسی سرگرمیوں میں شرکت نہیں کر سکیں گے۔
وکٹری پارٹی کے 63 سالہ سربراہ اومیت اوزداغ کا تعلق تعلیم کے شعبے سے رہ چکا ہے اور ترکیہ کی پناہ گزینوں کے حوالے سے پالیسی کی کھل کر مخالفت کرتے آئے ہیں۔ اومیت اوزداغ نے ترکیہ میں لاکھوں کی تعداد میں پناہ لینے والے شامی شہریوں کو ملک سے نکالنے کا مطالبہ کیا ہے۔
پارٹی کا کہنا ہے کہ اومیت اوزداغ کو استنبول کے مضافات میں سیلیوری کے علاقے میں واقع جیل میں قید کیا گیا ہے۔