غازی آباد(فرقان اخترقاسمی) مولانا ابوالکلام آزاد ایک بھارتی مجا ہد آزادی‘اسلامی مذہبی رہنما‘قلمکار اور بھارتی نیشنل کانگریس کے ایک لیڈر تھے بھارت کی آزادی کے بعد وہ بھارت سرکار میں پہلے وزیر تعلیم بنے انہیں عام طور پر مولانا آزاد کے نام سے یاد کیاجاتاہے لفظ مولانا ایک انتہائی احترام کے معنی کا حامل ہے جس کا مطلب ہے ہمارے استاذ ‘اور انہوں نے لفظ آزاد کو اپنے تخلص کے طور پر استعمال کیا تھا بھارت میں تعلیم کی بنیاد قائم کرنے میں ان کے تعاون کودیکھتے ہوئے ان کے یوم پیدائش کوپورے ملک بھرمیں ’’قومی یوم تعلیم‘‘ کے طوپر منایاجاتاہے مولانا آزاد عرب ملک کے مکہ شہر میں ایک تعلیم یافتہ بھارتی مسلم مرد اور عربی عورت کے گھرانے میں پیدا ہوئے جب وہ چھوٹے تھے تب ان کے اہل خانہ واپس بھارت میں واقع کلکتہ میں آگئے تھے اور انہوں نے مدرسے کے بجائے اپنے گھر پر ہی اپنے والد اور دیگر اساتذہ سے روایتی اسلامی تعلیم حاصل کی ایک نوجوان کے طور پر مولانا آزاد نے اردو زبان میں نظموں کے ساتھ ساتھ مذہب اور دیگر امور پر کافی کتابیں بھی لکھی وہ ایک صحافی کے طور پر اپنے نمایاں کام کے ذریعے آگے بڑھے او رخوب نام کمایا بر ٹش حکومت کے خلاف ان کی نظمیں شائع ہوئی اور انہوں نے اپنی تحریر تقریر اور نظموں کے ذریعے بھارتی حب الوطنی کی حمایت کی مولادآزاد خلافت آندولن کے لیڈر بنے اور آزاد 1919میں رالیٹ ایکٹ کے خلاف عدم تعاون آندولن کو جمع کرنے اورملکی اشیاء کو بڑھاوا دینے کے لئے کام کیا سن1923میں 35سال کی عمر میں وہ بھارتی نیشنل کانگریس کے صدر کے طور پر خدمت کرنے والے سب سے کم عمر کے شخص بنے اکتوبر 1920میں آزاد برٹش نوآبادیاتی حکومت کے تعاون کے بغیر بنے اتر پردیش کے علی گڈھ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قیام کے لئے بنائی گئی کور کمیٹی کے رکن کے طور پر منتخب کئے گئے انہوں نے سن 1934میں یونیورسٹی کو علی گڈھ سے دہلی منتقل کرنے میں کافی تعاون کیا تعلیمی دنیا میں ان کی قربانی اور تعادن کا پتہ اس سے چلتا ہے کہ جامعہ ملیہ اسلا میہ یونیورسٹی کے سات نمبر دروازہ کا نام ان کی نام پر ہی رکھاگیاہے مولانا آزاد نے ہندو مسلم اتحاد کے ساتھ ساتھ سیکولرازم اور سماجواد کی حمایت کی انہوں نے الہلال اخبار کے توسل سے ہندو مسلم اتحاد کے لئے بھی کام کیا انہوں نے 1940سے 1945تک کانگریس کے صدر کے طور پر کام کیا اور اس دوران وہ جیل بھی گئے تھے انہوں نے آزاد بھارت اور پاکستان میں برٹش حکومت کی تقسیم کی سخت مخالفت کرتے ہوئے ایک ایسے بھارت کی حمایت کی جو ہندو اور مسلم دونوں کو گلے لگائے انہوں نے 1947سے اپنی وفات تک جواہر نہرو کی قیادت والی بھارت سرکار میں وزیر تعلیم کے طور پر کام کیا ان کی سوانح حیات ’’انڈیا ونس فریڈم‘‘ سن1959میں ان کی وفات کے بعد شائع ہوئی مولانا آزاد کو ان کی وفات کے بعد بھارت کے اعلی شہری اعزاز’’بھارت رتن‘‘ سے نوازا گیا ان کے یوم پیدائش پر ہمیں ان کے دکھائے گئے راستہ پر چل کر تعلیم کے ساتھ ساتھ ہندو مسلم اتحاد کو بھی بڑپاوا دینا ہوگا۔