(سید مجاہد حسین)
عام آدمی کے سینئر لیڈر اور کیبنٹ وزیر ستیندر کمار جین کو اگر چہ ابھی ضمانت نہیں ملی ہے لیکن ان کے جیل میں گزر رہے شب وروز اپوزیشن پارٹی بی جے پی کیلئے کسی تریاق سے کم ثابت نہیں ہو رہے ہیں۔ستیندر جین کی خراب صحت کی وجہ سے جیل کے اندر ملنے والی خصوصی خدمات کا بی جے پی کچھ اس ڈھنگ سے چرچا کرنے میں لگی ہے گویا جین نے کوئی بہت بڑا جرم کر دیا ہو یا پھر وہ جوطبی خدمات لے رہے ہیںاس میں انہوںنے کسی سے کوئی اجازت ہی نہ لی ہو ۔لہذاکچھ وفادار ٹی وی چینلوں پر انکا وہ ویڈیو بے کئی دن تک حد چٹخارے لے لے کر دکھایا جاتا رہا جس میں وہ ایک شخص سے اپنے پیروںکا مساج کروا رہے تھے۔بتا دیں کہ وہ نسوں کی کی ایک خاص بیماری سے متاثر ہیں ،اور اس لئے کورٹ نے انہیں طبی خدمات جیل کے بیرک کے اندر لینے کی منظوری دی ہوئی تھی ،تاہم یہ بات چینلوں سے چھپالی گئی ،اور جیل میں بند ایک وزیر کا بدنامی کی نیت سے خوب نام اچھالا گیا !۔لیکن اس کا انکشاف منیش سسودیا کواس وقت کرنا پڑا جب شور شرابہ زیادہ ہونے لگا تب جا کر کچھ معاملہ سرد پڑا۔
غلط نہیںکہ شور کرنے والوں کو اس بات سے ہرگز کوئی سرو کار نہیں تھا کہ ستیندر جین کے ساتھ کیا مجبوری تھی یا پھر ان کے پاس کوئی اجازت نامہ تھا یا نہیں ، بس انہوںنے شور مچانا شروع کردیا ۔یہ خبر کئی دن تک ٹی وی چینلوں پر چھائی رہی ،اور ویڈیو کو ہر زاویئے سے دکھانے کی کوشش کی گئی کہ ستیندر جین جیل کے اندر بستر پر کس طرح لیٹے ہوئے مساج کرا رہے ہیں ۔الغرض ، جب یہ معاملہ عدالت پہنچاتو معاملہ الٹا پڑ گیا ،عدالت ای ڈی سے سوال کر بیٹھی کہ جو سی سی ٹی وی ویڈیو ستیندر جین کا ٹی وی چینلوں پر چل رہا ہے وہ باہرکیسے آیا اور کیسے لیک ہوا ؟۔ظاہر ہے اس پر جانچ ایجنسی ای ڈی کے ہاتھ پیر پھولنا فطری تھا ، اس نے آنا فانا ایک حلف نامہ داخل کر کے عدالت کو بتایا کہ اس نے کوئی بھی ویڈیو کسی چینل کو نہیں دکھایا ،اور نا ہی اس کا اس میں کوئی رول تھا ۔لیکن جین کے وکیل کے ای ڈی سے کئی کائونٹر سوالات عدالت میں اس کو بغلیں جھانکنے پر مجبور کر گئے۔ بہر حال ،اس بات کو لوگ اچھی طرح سمجھ رہے ہیں کہ دہلی اور گجرات میں الیکشن کا دور ہے اس لئے اپوزیشن بی جے پی کا اس طرح شور شرابہ کرنا موقع پرستی کے سوا کچھ نہیں ! ،لیکن یہ غلط نہیں کہ ابھی یہ معاملہ ایک پہلی بنا ہوا ہے کہ جیل کی فوٹیج کیسے لیک ہوئی اور اس کے پیچھے کس کا ہاتھ رہا ،جبکہ عدالت کے سخت آرڈر تھے۔ایڈی نے جب اس سے انکار کردیا تو اب یہ الزام کس کے سر جائیگا ،نہیں کہہ سکتے۔ اس لئے یہ سوال کھڑا رہے گا کہ ذمہ دار کون ہے اور ویڈیو کس نے لیک کیا ۔اس لئے صرف انکا ر کر دینے سے کام نہیں چلے گا بلکہ اپنے بچائو میں پختہ دلیل بھی دینا چاہئے۔ایک سوال یہ ہے کہ آج کورٹ میں ای ڈی سماعت ٹالنے کا بہا نہ کیوں کررہی تھی؟دلچسپ بات یہ ہے کہ ای ڈی اس وقت لا جواب ہو گئی جب ستیندر جین کے وکیل نے اس سے اس کے حلف نامہ کو میڈیا میں نشر کئے جانے پر اعتراض جتایا اور اس کو عدالت کے سامنے اجاگر کیا۔جین کے وکیل کا اعتراض تھا کہ ابھی تک ای ڈی کا حلف نامہ عدالت میں نہیں آیا اور نا ہی انہیںملا لیکن چینل اس کو دکھا رہے ہیں ایساکیوں اور کیسے ہوا ؟جین کے وکیل کا کہنا تھا کہ’’ پورا حلف نامہ عدالت میں آنے سے پہلے چینل پر کیسے چل رہا ہے ،ای ڈی بتائے‘‘۔غور طلب ہے کہ سیتندر جین منی لانڈرنگ کے معاملے میں پچھلے ساڑھے پانچ مہینے سے جیل میں بند ہیں ،اور وہ ضمانت کے لئے بار بار کوشش کرتے ہیں لیکن انہیں ضمانت نہیں مل پارہی ہے ۔کہا جاتا ہے کہ جیل میں ان کا اٹھائیس کلو وزن کم ہو گیا ہے ،لیکن بی جے پی ان کی گرتی صحت کا مذاق اڑا رہی ہے ۔
بہر حال اب جبکہ ایڈی نے اپنے حلف نامہ میں اس بات سے انکا کیا ہے کہ جیل کا ویڈیو اس کی طرف سے لیک ہوا ہے ،ایسے میں اب یہ سوال اہم ہے کہ اس کیلئے کون ذمہ دار ہے ؟اس میں شک نہیں کہ کچھ ٹی وی چینل غیر ذمہ دارانہ صحافت کیلئے بدنامی کا طوق اپنے گلے میں ڈالے ہوئے ہیں ۔کئی بار ان پر میڈیاٹرائل کے الزامات بھی لگے ہیںایک وقت ایسا بھی آیا ہے جب عدالت میں ان کے خلاف نفرت پھیلانے کی شکایت کی گئی اور انہیں سزا دینے کا مطالبہ اٹھنے لگا،اب بھی یہ معاملہ ہنوز سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔اس لئے اب ستیندر جین معاملے میں چینلوں پر الزامات کوئی تعجب کی بات نہیں ۔یہ بے حد افسوس کی بات ہے کہ جین کے معاملے میں عدالتوں کی سخت تاکید و تنبیہ کے باوجود خفیہ اطلاعات چینلوں کے ہاتھ لگیں اور سب کو الم نشرح کی گئیں ۔ یہ سراسر توہین عدالت کا معاملہ ہے کہ جیل فوٹیج کیسے لیک ہوئی اور حلف نامہ عدالت پہنچنے سے پہلے میڈیا کو کیسے ہاتھ لگ گیا اس میں عدالت کے حکم کا پاس و لحاظ کیوں نہیں رکھا گیا۔اسمیں سخت جوابدہی بنتی ہے ،لیکن اس میں ایمانداری نہیں دکھائی جارہی ہے۔اس میں بی جے پی کو بھی جواب دینا چاہئے کہ اس کے پاس وہ ویڈیوں کیسے پہنچا۔












