تل ابیب (ہ س)۔اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو نے گزشتہ روز اتوار کی شام غزہ کے محصور علاقے میں کچھ غذائی اشیاء داخل کرنے کی اجازت دینے کا اعلان کیا۔ یہ اعلان فوج کی جانب سے غزہ میں ایک نئی اور وسیع زمینی کارروائی کے آغاز کے چند گھنٹوں بعد سامنے آیا۔ اس فیصلے نے نیتن یاہو کے موقف کی تبدیلی پر سوالات کھڑے کر دیے۔ بالخصوص جب کہ یہ اعلان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب تمام اشارے اس بات کی طرف تھے کہ زیادہ تر وزراء اس اقدام کے خلاف ہیں۔تاہم بعض اسرائیلی وزراء نے واضح کیا کہ نیتن یاہو کی رضامندی کی وجہ امریکی دباؤ تھا، یہ بات اسرائیلی اخبار’یدیعوت احرونوت‘ نے بتائی۔اسی طرح اسرائیلی وزیر خارجہ جدعون ساعر نے واضح کیا کہ "امداد کو غزہ میں داخل کرنے کی اجازت نہ دینے پر پابندیاں عائد کرنے کی دھمکیاں دی گئیں، اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے دباؤ بھی موجود تھا”۔ یہ بات اسرائیلی ٹی وی چینل 12 نے بتائی۔گزشتہ روز سلامتی سے متعلق کابینہ کے مختصر اجلاس میں قومی سلامتی کے وزیر ایتمار بن گوئر نے امداد کے داخلے کے معاملے پر ووٹنگ کا مطالبہ کیا، مگر ان کا مطالبہ مسترد کر دیا گیا۔ بن گوئر نے کہا کہ وزیرِ اعظم نے یہ فیصلہ کر کے سنگین غلطی کی ہے اور واضح کیا کہ ان کا یہ قدم متفقہ نہیں تھا … جب کہ قومی سلامتی کے مشیر، تساحی ہنگبی نے انھیں اشتعال انگیزی کا مرتکب قرار دیا۔بعد ازاں نیتن یاہو کے دفتر نے امداد کے ایک مخصوص حجم کے داخلے کی اجازت دینے کا اعلان کیا، اس بات کی تصدیق کے ساتھ کہ ایسے اقدامات کیے جائیں گے جو حماس کو امداد کی تقسیم پر کنٹرول سے روکیں، اور یہ یقینی بنایا جائے گا کہ امداد اس کے جنگجوؤں تک نہ پہنچے۔اسرائیلی اخبار کے مطابق، حکومتِ اسرائیل کی جانب سے امداد کی فراہمی کے لیے جو منصوبہ تیار کیا گیا ہے، وہ عارضی طور پر اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ 24 مئی کو ایک امریکی نجی سیکیورٹی کمپنی امداد کی تقسیم کی نگرانی کا کام سنبھال نہیں لیتی، جو کہ مخصوص انسانی علاقوں میں یہ نگرانی کرے گی۔اس وقت تک امداد ان علاقوں تک پہنچے گی جہاں شدید لڑائی جاری نہیں ہے۔ٹرمپ نے گزشتہ دنوں میں زور دیا تھا کہ غزہ کے عوام تک امداد پہنچانا ضروری ہے، خاص طور پر ان خبروں کے پس منظر میں کہ ان کے اور اسرائیلی وزیرِ اعظم کے درمیان بعض امور، بالخصوص غزہ، ایران سے مذاکرات اور یمن میں حوثیوں کے ساتھ جنگ بندی کے معاملے پر اختلافات بڑھ رہے ہیں۔یاد رہے کہ اسرائیل نے 2 مارچ سے غزہ میں تمام امداد کے داخلے پر پابندی لگا دی تھی، تاکہ حماس پر مذاکرات کے ذریعے دباؤ ڈالا جائے اور وہ اپنے قبضے میں موجود تمام یرغمالیوں کو اس شرط کے بغیر رہا کرے کہ جنگ کو مکمل طور پر روکا جائے۔