غزہ (ہ س)۔غزہ کی پٹی میں تین ماہ کے تعطل کے بعد کرم ابو سالم کے راستے امدادی ٹرکوں کے داخلے کے مناظر سامنے آئے ہیں۔ اسرائیلی فوجی ریڈیو سے گفتگو میں سیکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ آئندہ چند گھنٹوں میں مزید چار ٹرکوں کے پہنچنے کی توقع ہے، اور امکان ہے کہ یہ تعداد آج کے دوران مزید بڑھ جائے۔العربیہ اور الحدث کے نمائندے کے مطابق، ابتدائی امداد بچوں کے لیے مختص ہے، جس کے بعد مختلف غذائی اشیاء پر مشتمل امداد پہنچے گی۔قبل ازیں، اسرائیل اور اقوام متحدہ نے اعلان کیا تھا کہ اسرائیل کی جانب سے مکمل محاصرے اور خوراک، ادویات و دیگر ضروری اشیا کی بندش کے تقریباً تین ماہ بعد، پہلی مرتبہ محدود تعداد میں امدادی ٹرک غزہ میں داخل ہوئے ہیں۔اسرائیلی فوج کے تحت امداد کے کوآرڈی نیشن کے ادارے "کوجات” کے مطابق، پانچ امدادی ٹرک جن میں بچوں کی خوراک شامل تھی، کرم ابو سالم کے راستے غزہ پہنچے، جہاں بیس لاکھ سے زیادہ فلسطینی مقیم ہیں۔اقوام متحدہ نے اس پیش رفت کو "خوش آئند” قرار دیا ہے، تاہم اس کا کہنا ہے کہ انسانی بحران پر قابو پانے کے لیے مزید امداد کی شدید ضرورت ہے۔ خوراک کی سلامتی کے ماہرین گزشتہ ہفتے غزہ میں قحط کے خطرے سے خبردار کر چکے ہیں۔اس سے قبل اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے کہا تھا کہ انھوں نے اتحادی ممالک کے دباؤ کے باعث بنیادی” نوعیت کی محدود امداد کی اجازت دی ہے، کیوں کہ اتحادیوں کا کہنا تھا کہ اگر فلسطینی علاقوں سے بھوک کی تصاویر آتی رہیں تو وہ اسرائیل کے نئے حملے کی حمایت نہیں کر سکتے۔ اقوام متحدہ کے ہنگامی امداد کے رابطہ کار ٹام فلیچر نے کہا کہ یہ چند ٹرک اصل ضرورت کے مقابلے میں سمندر میں ایک قطرہ” ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ اقوام متحدہ کے مزید چار ٹرکوں کو غزہ میں داخلے کی اجازت ملی ہے۔جنگ بندی کے دوران روزانہ چھ سو امدادی ٹرک غزہ میں داخل ہوا کرتے تھے۔فلیچر نے مزید کہا کہ زمین پر بد انتظامی کے سبب اقوام متحدہ کو خدشہ ہے کہ امداد لوٹ لی جائے گی یا چوری ہو جائے گی۔ انھوں نے اسرائیل سے شمالی اور جنوبی غزہ میں مزید راستے کھولنے کا مطالبہ کیا تا کہ امداد کا سلسلہ باقاعدگی سے جاری رہے۔جیسے ہی اسرائیل نے پہلے امدادی ٹرکوں کے داخلے کا اعلان کیا، برطانیہ، فرانس اور کینیڈا نے ایک سخت لہجے میں مشترکہ بیان جاری کیا، جس میں امداد کو "بالکل نا کافی” قرار دیا گیا۔ ان تینوں ممالک نے اسرائیل کی غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے میں سرگرمیوں کے خلاف "ٹھوس اقدامات” اور ممکنہ پابندیوں کی دھمکی دی، اور اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ غزہ میں اپنی نئی "شرم ناک” فوجی کارروائیاں بند کرے۔اس بیان پر رد عمل دیتے ہوئے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے کہا کہ یہ مشترکہ بیان سات اکتوبر کو اسرائیل پر ہونے والے "نسلی تطہیر پر مبنی حملے” کے لیے "بڑے انعام” کے مترادف ہے۔ہفتے کے اختتام پر اسرائیل نے غزہ میں فضائی اور زمینی کارروائیوں کی نئی لہر شروع کی، اور فوج کو دوسری بڑی فلسطینی شہر خان یونس کو خالی کرنے کا حکم دیا۔ اس سے قبل خان یونس میں ایک بڑے فوجی آپریشن کے بعد شہر کا بیشتر حصہ تباہی کا شکار ہو چکا ہے۔اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ حماس پر دباؤ ڈال رہا ہے تاکہ وہ سات اکتوبر 2023 کے حملے میں اغوا کیے گئے باقی یرغمالیوں کو رہا کرے۔ حماس نے اعلان کیا ہے کہ وہ صرف مستقل جنگ بندی اور اسرائیلی انخلا کے بدلے میں یرغمالیوں کو رہا کرے گی۔نیتن یاہو نے پیر کے روز ایک بار پھر دہرایا کہ اسرائیل پورے غزہ پر کنٹرول کا منصوبہ رکھتا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ وہ غزہ کے بیشتر شہریوں کی ان کے مرضی سے دوسرے ممالک ہجرت کی "حوصلہ افزائی” کریں گے، جسے فلسطینیوں نے سختی سے مسترد کیا ہے۔