خبرایک ہفتہ پہلے کی ہے کہ جواہر لال نہرو یونیورسٹی انتظامیہ نے وزیر اعظم نریندر مودی پر بی بی سی کی دستاویزی فلم کی نمائش کے خلاف خبردار کیا تھا۔ بتایا گیا تھا کہ چونکہ مرکز نے اس دستاویزی فلم پر ملک بھر میں پابندی لگا دی ہے۔ ایسے میں جو بھی اس حکم کی خلاف ورزی کرے گا اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ جے این یو انتظامیہ کا یہ بیان طلباءکے ایک گروپ کی جانب سے منگل کے روز دستاویزی فلم کی اسکریننگ کے لیے ایک پمفلٹ جاری کرنے کے بعد آیا تھا۔ ایڈوائزری کے مطابق جواہر لعل نہرو اسٹوڈنٹس یونین نے جے این یو انتظامیہ سے بی بی سی کی دستاویزی فلم’انڈیا: دی مودی کوشچن‘ کی نمائش کی اجازت نہیں مانگی تھی جس پر انتظامیہ کا کہنا تھا کہ اس طرح کی غیر قانونی سرگرمی جے این یو کیمپس کے امن اور ہم آہنگی کو بگاڑ سکتی ہے۔
ایسا لگتاہے کہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے طلبا کی نیند پھر کھلی ہے اور سونے سے اٹھ کر آنکھ ملتے ہوئے پہلے یہ لوگ بی بی سی کی ڈکیو مینٹری دیکھنا چاہتے ہیں۔ایک ایسی سچی کہانی کا ویڈیو ورڑن دیکھنے کا کیا مطلب ہے جس کے براہ راست نشریات نے پورے ملک میں نفرت کا ایسا ماحول بنا دیا تھا کہ گجرات کا وزیر اعلیٰ سیدھے وزیر اعظم کی کرسی تک جا پہنچا۔اور ملک کے ماحول کو دیکھتے ہوئے مستقبل قریب میں اس کی واپسی کے بھی آثار نظر نہیں آ رہے ہیں۔ اور اب تو حالت یہ ہے کہ پورے ملک کی ایک درجن سے زاید یونیورسٹی میں اس مووی کو دکھا کر اسٹوڈنٹ اپنے آئینی حق کا استعمال کرنے کا ڈھنڈورا پیٹ چکے ہیں گذشتہ کل دہلی یونیورسٹی کے آرٹس فیکلٹی میں بھی شور شرابے کے دوران اس ڈکیومینٹری کی نمائش ہوئی۔ظاہر ہے یہ سب لیفٹ فرنٹ کی طلبا تنظیمیں کر رہی ہیں۔کیونکہ ہنگامہ برپا کرنے کو ہی وہ اپنا فرض سمجھتے ہیں۔دہلی یونیورسٹی میں یہ نمائش یا اس کی کوشش اس وقت ہوئی جب ہنڈن برگ کی اڈانی کے بڑھتے امپائر پر کی گئی دو سالہ ریسرچ کے نتائج آ چکے ہیں اور اخبارات میں اسے شایع بھی کیا جارہا ہے۔لیکن تین چار دن گذرنے کے بعد بھی سرکار کی طرف سے اس رپورٹ پر بالکل خاموشی ہے۔لیکن یہ خاموشی بھی سمندر میں طوفان آنے کے پہلے والی خاموشی ہے۔ایک طوفان تو شروع بھی ہوچکا ہے لیکن وہ طوفان کسی کو نظر نہیں آرہا ہے۔خاص طور پر ان لوگوں کو جو گجرات قتل عام کے بعد سے ہی اس توقع پر جی رہے ہیں کہ ایک دن مودی کی اصل کارستانیوں سے عام لوگ واقف ہو جائینگے اور پھر یہ سارا سحر ٹوٹ جائے گا۔فلم دی’انڈیا مودی کوشچن‘کی نمائش کر کے بھی کچھ لوگ یہی سمحھ رہے ہیں کہ حقیقت کو جان کر عام لوگ مودی سے بد ظن ہو جائینگے۔اور یہ سمجھنے والے وہی لوگ ہیں جو زبانی طور پر یہ کہتے رہتے ہیں کہ ملک کے عام لوگ آج بھی نہایت معصوم ہیں اور ان تک حقیقت پہنچنے کی دیر ہے وہ مودی مخالف ہو جائینگے،اور وہ عوام تک حقیقت کے پہنچنے میں تاخیر کی وجہ صرف میڈیا کو قرار دیتے ہیں لیکن یہ پوری سچائی نہیں ہے۔ایسے لوگوں کو یہ اندازہ ہی نہیں ہے کہ مودی اینڈ کمپنی نے نہایت خاموشی سے ملک کے عام اکثریتی طبقہ تک یہ بات پہنچا دی ہے کہ مودی اس دور کے بھگوان ہیں اور وہ ہندو مذہب کی احیا کے لئے بھیجے گئے ہیں اور وہ مسلسل اپنا کام کر رہے ہیں۔گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام بھی سناتنی ہندوؤں کے لئے گورو کی بات ہے اور جب تک وہ مسلمانوں کے خلاف اپنا دھرم یدھ جاری رکھیںگے عام ہندوؤں کا ووٹ انہیں ملتا رہے گا۔بی بی سی کی ڈکیو مینٹری کو بھی مودی کے ووٹر اپنے حق میں سمجھتے ہیں کیونکہ 2002کے گجرات قتل عام کو اٹھارہ اور بیس برس کے نوجوانوں نے دیکھا نہیں ہے۔اور وہ سب اس دھرم یدھ کو جب دیکھ رہے ہیں تو ان کے اندر مودی جیسے یگ پروش کےلئے پیار اور محبت کا جذبہ مزید بڑھ رہا ہے۔ موجودہ ملک کا جو ماحول ان بیس برسوں میں بنا ہے اس میں اب مودی ٹیم کے خلاف ہونے والے ہر حملے کو ان کے بھکت اپنی آستھا پر حملہ سمجھتے ہیں۔اور اب تو وہ سارے بھکت اڈانی پر آئے ہنڈن برگ کے ریسرچ پیپر کو بھی ودیشی حملہ قرار دے رہے ہیں۔ان کا صاف صاف کہنا ہے کہ پوری دنیا میں مودی کا دبدبہ اتنا بڑھ گیا ہے کہ اس کے خوف سے لرز رہی دنیا اب ایسے اوچھے ہتھیار کا استعمال کر رہی ہے کہ مودی کی مالی مدد کرنے والے اڈانی کے پیچھے بھی پڑ گئی ہے۔ورنہ آخر کیا وجہ ہے کہ نوٹ بندی سے لے کر جی ایس ٹی تک ،کورونا کے دوران ہزاروں کیلو میٹر تک پیدل چلنے اور روزگار کے لئے در در بھٹکنے پر مجبور ہونے کے باوجود لوگ مودی کے حق میں ہی ووٹ کرتے جا رہے ہیں۔رافیل جیسے گھوٹالے پر بھی عوامی احتجاج نہیں ہوا اور نہ ہی پلوامہ میں شہید ہونے والے فوجیوں پر کوئی سوال کیا گیا ۔
یہ چند سو کی تعداد والے دانشور اور صحافی اگریہ سمجھتے ہیں کہ ہنڈن برگ رپورٹ اور بی بی سی کی ڈاکیومینٹری سے مودی کے بھکتوں کے کان پر جوں رینگے گی تو یہ ان لوگوں کی غلط فہمی ہے۔بی جے پی اور آر ایس ایس نے نہایت سوچ سمجھ کر مذہب کو اپنا قلعہ بنا لیا ہے اور آستھا کو اپنا ہتھیار۔ان کی بھکت منڈلی نے یہ کمپین چلانا شروع بھی کر دیا ہے کہ دیش کے ٹکڑے ٹکڑے گینگ نے بین الاقوامی سطح پر بھارت اور بھارت کے پردھان منتری کو بد نام کرنے کی سازش کی ہے اور ہنڈن برگ کا سارا ریسرچ بے بنیاد افواہ کے سوا اور کچھ نہیں۔
رہا سوال اڈانی اور مودی جی کے تعلقات کا تو کیا مودی جی اتنے ناسمجھ ہیں کہ وہ اپنے اتنے قریبی دوست کو نا سمجھی میں نواز رہے ہیں ؟ اب وقت ہے میڈیا مینجمنٹ کا اور اس کام میں مودی جی سے بڑا فنکار فی الوقت تو اس روئے زمین پر کوئی دوسرا نہیں ہے۔لہٰذا ہمیں بہت زیادہ خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا ہے۔سب کچھ ایجنڈے کے مطابق ہو رہا ہے اور آئندہ بھی اسی نہج پر چلے گا۔بھکت کبھی بھگوان کی برائی نہیں سن سکتے اور کوئی مانے یا نہ مانے ملک میں ایک بار اور بھکتی کال شروع ہو چکا ہے۔