واشنگٹن :اقوام متحدہ نے ہفتے کے روز کہا ہے کہ طالبان کو ملک میں خواتین کی تعلیم اور کام کرنے سے روکنا افغانستان کو پیچھے دھکیل دے گا۔اقوام متحدہ نے کہا کہ ہم طالبان رہ نماؤں سے ملاقات کریں گے تاکہ بین الاقوامی اداروں میں خواتین کی ملازمت پر پابندی کے ان کے فیصلے کو واضح کیا جا سکے۔”انہوں نے مزید کہا کہ "طالبان کے فیصلوں کی وجہ سے افغانستان میں امن اور استحکام کا حصول خطرے میں ہے۔”اقوام متحدہ کی طرف سے یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب دوسری طرف طالبان حکومت نے بنیاد پرستی کامظاہرہ کرتے ہوئے لڑکیوں کی تعلیم پرپابندی کے بعد ان کی ملازمت پربھی پابندی عاید کردی ہے۔افغانستان میں کام کرنے والی این جی اوز کے لیے لائسنس کی منظوری کے لیے ذمہ دار وزارت نے ’اے ایف پی‘ کے ذریعے دیکھے گئے ایک خط میں کہا "اسلامی طرز کے مطابق سرڈھانپنے اور مقامی اور بین الاقوامی اداروں میں کام کرنے والی خواتین سے متعلق دیگر قواعد و ضوابط کی عدم تعمیل کے حوالے سے سنگین شکایات موصول ہوئی ہیں۔”وزارت نے بین الاقوامی اور مقامی غیر سرکاری تنظیموں کو لکھے گئے اپنے خط میں یہ بھی کہا ہے کہ ہدایت کو نظر انداز کرنے کی صورت میں تنظیم کا لائسنس منسوخ کر دیا جائے گا۔”اپنی طرف سے ملک کے کئی دور دراز علاقوں میں انسانی ہمدردی کے کاموں میں شامل ایک بین الاقوامی تنظیم کے ایک سینیر اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ ہم اتوار تک اپنی تمام سرگرمیاں معطل کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم جلد ہی تمام ’این جی اوز‘ کے سینیر عہدیداروں کی ایک میٹنگ کریں گے تاکہ یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ اس مسئلے سے کیسے نمٹا جائے۔”یہ اعلان طالبان کی حکومت کی جانب سے افغان خواتین کے سرکاری اور نجی یونیورسٹیوں میں غیر معینہ مدت کے لیے جانے پر پابندی کے فیصلے کے محض چار دن بعد سامنے آیا ہے۔ہائیر ایجوکیشن کے وزیر ندا محمد ندیم نے اس فیصلے کے دو دن بعد "طالبات کی جانب سے سر کے اسکارف سے متعلق ہدایات پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے” کا جواز پیش کیا۔طالبان حکام کو اس فیصلے پر بین الاقوامی غم و غصہ کا سامنا کرنا پڑا ہے کیونکہ دنیا کے بیشتر ممالک نے طالبان کے ہاتھوں افغان خواتین کے جبر کی مذمت کی۔خواتین کو زیادہ تر سرکاری ملازمتوں سے بھی نکال دیا گیا یا انہیں گھر میں رکھنے کے لیے کم اجرت دی گئی۔