شام:شام کی سابق حکومت کی جانب سے کیے جانے والے جرائم کے بارے میں خبریں گردش کرتی رہتی ہیں۔بشار الاسد رجیم اپنے سقوط تک اپنے عوام کے حقوق سلب کرنے میں ملوث رہی۔ اطلاعات ہیں کہ بشار الاسد روس فرار کے دوران بھاری مقدار میں ہیرے ، جواہرات، سونا اور نقدی لے کر گئے۔
انہوں نے اپنے مخالفین کے خلاف 2011 سے شروع کی جانے والی جنگ کے دوران نہ صرف ہزارو ہزاروں افراد ہلاک، لاکھوں کو زخمی اور لاکھوں کو بے گھر کیا وہیں انہوں نے تمام مقامی، عرب اور بین الاقوامی سطح پر پیش کردہ تمام سیاسی حل مسترد کردیے۔ شام میں عوام کی منظم نسل کشی میں انہیں روس اور ایران کی طرف سے بھی بھرپور امداد ملتی رہی۔
شامی مذاکراتی کمیٹی کے سابق آئینی مشیر ایڈووکیٹ عیسیٰ ابراہیم نے بشار الاسد کے اقتدار سے نکلنے کو "اس طرح فرار ہونے، اور اپنے اختیارات کسی مقامی، انقلابی، یا غیر جانبدار پارٹی کو منتقل کیے بغیر” فرار قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ بشارالاسد نے اپنی مجرمانہ پالیسیوں کی وجہ سے ملک کو تباہی کے دھانے پر لا کھڑا کیا۔ عیسیٰ ابراہیم بتاتے ہیں اسد کے اپنے عہدے سے دستبردار ہونے کا اعلان کرنے سے انکار کی وجہ ان کی "شخصیت میں موجود ضد اور تکبر تھا، ان یہ خود سری نہیں لے ڈوبی۔ استعفیٰ کا بیان جاری نہ کرنے کی سب سے اہم وجہ بھی ان کا غرور تھا۔ ان کی خواہش تھی وہ ملک کے اڈے تباہ کر دیں یا ملک کو جلا دیں گے”۔
عیسیٰ ابراہیم جو اس وقت شام کے ساحلی علاقوں میں سرگرم ایک سیاسی تنظیم "سول ورک موومنٹ” کے مشیر کے طور پر کام کر رہے ہیں نے "العربیہ ڈاٹ نیٹ” کو دیے گئے بیانات میں کہا کہ الاسد شام کو لوٹ کر چلے گئے۔ روس اور ایران کے ساتھ معاہدوں کے ذریعے ملک کو کئی دہائیوں تک گروی رکھا رقم اور سونا جیسی بڑی مقدار میں شامی دولت لوٹی گئی۔
دوسری طرف انہوں نےکہا کہ بشار الاسد کا نکلنا "روسی مدد” کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ انہوں نے اس فرارکو روس کی "گود” میں جانے کے مترادف قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کا انکشاف کہ بشار الاسد اور روسی صدر کے درمیان تعلقات کی نوعیت "دو ممالک کے درمیان تعلقات” نہیں تھی، بلکہ "دو لوگوں، الاسد اور پوتین کے درمیان تعلق” تھا۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کو دیے گئے اپنے بیانات میں ابراہیم نے اسد حکومت کے علامتی ٹرائل کا مطالبہ کرتے ہوئےکہا کہ سابق فوجی افسروں کے خلاف عدالتی کارروائی کی جانی چاہیے۔ اس کے علاوہ تمام "جنگی مجرموں کا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو انہیں معاف نہیں کیا جانا چاہیے کیونکہ انہوں نے سنگین جرائم کا ارتکاب کیا”۔
انہوں نے کہا کہ انصاف کی حصولی اور مجرموں کو سزاؤں کے اطلاق کو یقینی بنانے کے لیے” ایک "بااختیار اور خودمختار ادارے” کے سامنے مقدمات چلائے جائیں۔