اطلاعات ونشریات کا ایک غیر ملکی معروف ادارہ برٹش براڈکاسٹنگ کارپوریشن (بی بی سی) کی ایک ڈاکیومنٹری پچھلے کچھ دنوں سے اخبارات کی سرخیاںاوربحث کا موضوع بنی ہوئی ہے ۔حکومت کو اس پر اعتراضات ہیں اور وہ کافی برہم ہے ۔یہ ڈاکیومنٹری گجرات فسادات سے متعلق ہے اور اسمیں اس وقت کی گجرا ت میں مودی حکومت کو فسادات کو روکنے میں ناکام رہنے کیلئے ہدف تنقید بنایا ہے ۔ایسے میں صحافتی پیشہ سے منسلک افراد،سلجھے ذہن کے لوگ اورسیکولرزم پر یقین رکھنے والا ایک بڑا طبقہ حکومت کے اعتراض کو غیر واجب قرار دے رہا ہے ۔جس کے بعد ملک میں پھر ایک نئی بحث کاآغاز نظر آرہا ہے۔وہیںاس معاملے کی گونج دہلی کی معروف جے این یونیورسٹی میں بھی سنائی دی۔اس لئے یونیورسٹی ایک بار پھر دو خانوں میںمنقسم نظر آرہی ہے اور اے بی وی پی ،و اسٹوڈینٹ یونین باہم متصاددم ہیں ،جس میں اے بی وی پی الزامات کے گھیرے میں ہے۔ در اصل یونیورسٹی میں ایک دن قبل وزیراعظم مودی پر بنی بی بی سی کی متنازعہ ڈاکیومنٹری کی اسکریننگ کو لے کر کافی ہنگامہ ہوا ہے۔ معاملہ اتنا بڑھا کہ کیمپس میں سنگ باری تک ہو گئی۔جس کی وجہ سے فورس طلب کرنا پڑگئی۔اب معاملہ تو قدرے ٹھنڈا پڑ گیالیکن طلبہ انتظامیہ کی طرف سے احتیاطی اقدامات جیسے بجلی اور انٹر نیٹ منقطع کرنے کے قدم سے سخت ناراض ہیں اور سوال پوچھ رہے ہیں کہ ایسا کیوں کیا گیا ؟۔وہ یہ بھی پوچھ رہے ہیں کہ یونیورسٹی میں بلیک آوٹ کیوں کیا گیاوغیرہ ۔ ادھر دوسری طرف ملک کے نامور صحافیوں میں سے ایک اور دی ہندو کے سابق ایڈیٹر این رام بھی یوٹیوب اور ٹویٹر پر بی بی سی کی دستاویزی فلم ’انڈیا: دی مودی کوئسچن ‘کو بلاک کرنے کی نریندر مودی حکومت کی کوشش سے ناراض ہیں اور وہ اسے ناقابل قبول سنسرشپ کے مترادف سمجھتے ہیںاور کہتے ہیں کہ یہ انتہائی قابل مذمت قدم ہے ۔کرن تھاپر کو دئے ایک انٹر ویو میں رام کہتے ہیں کہ حکومت ’پاگل‘ ہو چکی ہے اور خود کو مشکل میں ڈال چکی ہے۔ انہوں نے کہا، ’اگر کوئی سمجھدار حکومت ہوتی تو وہ کوئی تبصرہ نہ کرتی اور نہ ہی اس سے اختلاف کرتی‘۔دی وائر کے لیے کرن تھاپر کے ساتھ 26 منٹ کے انٹرویو میں، رام سے سب سے پہلے بی بی سی کی دستاویزی فلم کے بارے میں ان کی رائے کے بارے میں پوچھاگیا تو انھوں نے کہا، ’یہ محتاط اور محنتی تحقیق کا ایک اچھی طرح سے پیش کردہ ٹکڑا ہے۔اور تحقیقاتی صحافت کی ایک مثال ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ دستاویزی فلم نے کوئی ضابطہ نہیں توڑا ہے۔وہیںانہوںنے وزارت خارجہ کے معاملوں کے ترجمان باگچی کے بارے میں کہا کہ’ جس نے دستاویزی فلم دیکھے بغیر اسے ’پروپیگنڈا‘ کہا اور اس پر’متعصبانہ اور معروضیت کی کمی‘ کا الزام لگایا، اس نے خود کو’مذاق‘ بنا لیا ہے۔انہوں نے کہا کہ دستاویزی فلم میں سپریم کورٹ پر کوئی حملہ نہیں ہے بلکہ حقیقت میں دستاویزی فلم خود کہتی ہے کہ سپریم کورٹ نے ایس آئی ٹی کی رپورٹ کو قبول کیا ہے جس نے مودی کو بری کیا اور حقیقت کو نہیں چھپایا۔ملک کی خودمختاری اور سالمیت کو متاثر کرنے والی دستاویزی فلم کے دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے رام کہتے ہیں کہ دستاویزی فلم سے ان پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔رام سے یوٹیوب اور ٹویٹر پر دستاویزی فلم کو "قومی سلامتی یا امن عامہ کے لیے خطرہ” کی بنیاد پر بلاک کرنے کے حکومتی فیصلے کے بارے میں پوچھا گیا، جس پر انہوںنے کہا کہ ’’یہ نہ صرف ناقابل قبول سنسرشپ کے مترادف ہے بلکہ بہت زیادہ کیا جا رہا ہے‘‘۔انہوں نے کہا کہ حکومت بوکھلا گئی ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ ایسا کرنے سے دنیا کو یہ پیغام گیا ہے کہ ہندوستان کی قومی سلامتی اور امن عامہ اس قدر نازک ہے کہ انہیں ایک ایسی دستاویزی فلم سے خطرہ لاحق ہے جو ملک میں نشر بھی نہیں ہوئی۔اس میں شک نہیں کہ ابھی اس فلم کو بھارت کے چند معدودے لوگوںنے ہی دیکھا ہوگا ،لیکن اب حکومت کا یہ اقدام اس سے کہیں زیادہ بحث کا موضوع بنا ہو اہے کہ اسے بین کرکے مزید لوگوں کی جستجو مزید بڑھا نے کا کام کیا گیا ۔اب سبھی کی نگاہیں اس طرف مرکوز ہیں کہ آخر فلم میں ایسا کیا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اب بی جے پی کو اس فلم پر اعتراض کیوں ہے ،جب کہ اس سے قبل ایسے کئی فلمیں اور بیانات بھارت کی سالمیت کو خطرے میں ڈالنے کا موجب بنے ہیں۔بہت سے ایسے لیڈر ہیں جو بھارت کی گنگا جمنی تہذیب کو بگاڑنے کے لئے کوشا ں رہتے ہیں اور انکے خلاف کوئی مناسب ایکشن نہیں لیا جاتا۔بلکہ ان کو مکمل سپورٹ کیا جاتا ہے! ۔جبکہ اقلیتوں کے خلاف زہر اگلنے والے آزاد گھومتے نظر آتے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ اب گجرات فسادات کے ذکر سے کسی کو بے چین نہیں ہو نا چاہئے،کیونکہ یہ چیپٹر بند ہوگیا ہے اور مودی خود پر لگے تمام الزامات سے عدالت سے بری بھی ہوگئے ہیں،ذکیہ جعفری کی آنکھیں پتھرا گئی ہیں اور وہ عدالت کے چکر کاٹ کر تھک ہار کر بیٹھ گئی ہیں ،وزیر اعظم مودی کو اور امت شاہ کو عدالت سے کلین چٹ بھی دے دی گئی ہے۔وہیںدوسری طرف اس فساد کے قصور واروں کو سزا دینے کے تمام راستے مسدود کر دئے گئے ہیںاور اب اس معاملے پر سپریم کورٹ میں آگے کوئی سنوائی نہیں ہوگی ۔قابل ذکر ہے کہ آج بھی گجرات فسادات کے ایک معاملے میں جس میں 17لوگ مارے گئے تھے ،22لوگوں کو گجرات عدالت نے بری کردیا ہے ۔اس سے پہلے گجرات کی ہی حکومت فسادات کی متاثرہ بلقیس بانو کے کیس کے 11مجرموں کو رہائی کا پروانہ جاری کرچکی ہے۔
بہر کیف تازہ ہنگامہ آرائی کے درمیان یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ بی بی سی کی ڈاکیومنٹری میں ایسا کیا مواد ہے کہ جس پر حکومت کو گھبراہٹ ہے اور اسے پابندی لگانا پڑ گئی؟جبکہ ہمارے وزیر اعظم مودی تو اب عدالت میں تمام الزامات سے پاک و صاف قرار دئے جا چکے ہیں۔












