ریاض: بادشاہوں کی حکمت، بہادری، شفقت، رحم، سخاوت اور انصاف ان کی شخصیت کا نمایاں حصہ ہوتی ہیں لیکن سعودی عرب کے بانی شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمن کی شخصیت میں جو چیز سب سے زیادہ نمایاں تھی وہ ان کا ’’ شاہی وقار ‘‘ تھا۔ یہ شاہی وقار ان کے اندرونی اور بیرونی خطوط میں واضح طور پر دکھائی دیتا تھا۔گزشتہ جمعرات کو دارہ الملک عبدالعزیز نے ایک ٹویٹ کے ذریعے بانی بادشاہ کے ایک خط سے پردہ اٹھایا جس میں لکھا تھا، لاحق خیر و سرور”۔ فاؤنڈیشن نے بتایا کہ یہ جملہ ان دستاویزات کا حصہ ہے جو ان کے پاس محفوظ ہیں اور یہ جملہ شاہ عبدالعزیز کی خط و کتابت کے وقار کی گواہی دیتا ہے۔دارہ الملک عبدالعزیز جسے مختصراً "الدارہ” بھی کہا جاتا ہے ایک خصوصی سرکاری ادارہ ہے جس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے سربراہ شہزادہ فیصل بن سلمان بن عبدالعزیز ہیں۔ اس ادارے کا مقصد سعودی عرب کی تاریخ، جغرافیہ، ادب اور آثار کو جمع اور محفوظ کرنا ہے۔ اس کے علاوہ یہ ادارہ جزیرہ نما عرب، عرب دنیا اور اسلامی دنیا کی تاریخ پر بھی کام کرتا ہے۔ یہ ادارہ سعودی تاریخ میں ایک مستند حوالہ سمجھا جاتا ہے۔ اسے 1392 ہجری یا 1972 عیسوی میں ایک شاہی فرمان کے تحت قائم کیا گیا تھا اور اس کا صدر دفتر سعودی دارالحکومت ریاض میں ہے۔بانی بادشاہ شاہ عبد العزیز کے خطوط اپنے نفیس اور سجے ہوئے انداز کے لیے مشہور تھے حالانکہ ان میں سے کچھ خط مقامی زبان میں بھی لکھے گئے تھے۔ یہ خط وہ خط تھے جو وہ علاقوں کے گورنروں، فوج کے کمانڈروں یا اپنے ان ذاتی نمائندوں کو بھیجتے تھے جو عوام کی خدمت پر مامور تھے۔ ان خطوط کی خاص بات ان کی خوبصورت ہاتھ کی لکھائی تھی۔شاہ عبدالعزیز کا کوئی بھی خط یا احکامات ان کی ذاتی مہر کے بغیر نہیں ہوتے تھے۔ وہ یہ مہر ایک انگوٹھی کی شکل میں اپنی انگلی میں پہنتے تھے۔ اس بیضوی شکل کی مہر پر بانی کا نام "عبدالعزیز بن عبدالرحمن الفیصل” کندہ تھا اور اس پر وہ سال بھی درج تھا جس میں یہ مہر بنی تھی۔ یہ سال 1321 ہجری یا 1903 عیسوی تھا۔