ای ڈی نے ڈی ایم کے لیڈر اور تمل ناڈو کے ایجوکیشن منسٹر کے پونموڈی اور ان کے ایم پی بیٹے گوتم سگمنی کے گھروں پر چھاپہ ماری کر کے ستر لاکھ روپئے اور کچھ پونڈ برامد کئے ہیں ۔واضح ہو کہ ایم کے اسٹالن وزارت کے وزیر ٹرانسپورٹ سینتھل بالاجی کے بعد پونموڈی دوسرے وزیر ہیں جو جانچ ایجنسی کے شکنجے میں جکڑے گئے ہیں۔بالا جی جب جون میں پکڑے گئے تھے تو ان پر نوکری دینے کے بدلے پیسے کی اگاہی کا الزام لگایا گیا تھا ۔
ای ڈی نے یہ دبش اس وقت دی ہے جب بنگلور میں اپوزیشن پارٹیوں کی میٹنگ ہو رہی ہے اور ایم کے اسٹالن اس میٹنگ کے خاص رکن ہیں ۔یعنی جو الزام اپوزیشن پارٹیاں مرکزی سرکار پر مسلسل لگا رہی ہے ہیں کہ اس سرکار نے سرکاری ایجنسیوں کو سیاسی ٹول بنا دیا ہے اس میں صداقت ہے اور سب کچھ عوام کے سامنے ہے ۔بی جے پی اپنے اوپر لگائے جانے والے ان الزامات کا صرف ایک جواب دیتی ہے کہ ایجنسیاں اپنا کام کرتی ہیں اس میں سرکار کیا کر سکتی ہے ۔لیکن کیا خود سرکار کو یہ نظر نہیں آرہا ہے کہ کانگریس سمیت تمام اپوزیشن پارٹیوں کی بے حد اہم میٹنگ بنگلور میں ہورہی ہے،اور عین اسی وقت اس چھاپہ ماری کا مطلب کیا نکالا جا سکتا ہے ۔جبکہ اس کے پہلے بھی ان ایجنسیوں پر یہ الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ ان 9سالوں میں مرکزی سرکار نے انہیں اپنا انتخابی ٹول بنا لیا ہے ۔اور وہ بی جے پی کے فراہم کئے گئے لسٹ کے مطابق پہلے حزب اختلاف کے لیڈروں کے گھروں پر چھاپہ مارتی ہیں ،اور پھر ان سے پارٹی کے لیڈر مول بھاؤ کرکے انہیں اپنی پارٹی میں شامل کر لیتے ہیں ۔اپوزیشن کے مطابق بی جے پی کا یہ نیا طریقہ کار ہے اور یہی وجہ ہے کہ جہاں بی جے پی کامیاب ہوتی ہے وہاں تو سرکار بناتی ہی ہے جہاں نہیں جیتتی وہاں ضرور سرکار بناتی ہے ۔اسٹالن کے وزیر پر ای ڈی کی چھاپہ ماری کو اسی طرح دیکھا جارہا ہے ۔اور ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی بھی باور یہی کرانا چاہتی ہے ،تاکہ اپوزیشن کے لیڈران ڈر جائیں اور مرکزی سرکار کی مخالفت سے باز آجائیں ۔پہلے ایسا لگتا تھا کہ 300سیٹوں سے زیادہ پر کامیاب ہوکر مرکز میں سرکار بنانے والی بی جے پی کو بھلا ضرورت ہی کیا ہے کہ وہ اپوزیشن پر حملہ آور ہونے کے لئے اس حد تک چلی جائے کہ غیر آئینی اقدام کرنے لگے ۔سرکاری ایجنسی کا اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال بہت بڑا اور سنگئن جرم ہے لیکن مرکزی سرکار اب ایسا کرتی ہوئی عام لوگوں کو بھی نظر آ رہی ہے ۔
راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا کی مقبولیت کے بعد سے بی جے پی کی بوکھلاہٹ میں مزید اضافہ ہوا ہے ۔اور اس کی سب سے بڑی وجہ ہے کہ آر ایس ایس ہو یا بی جے پی اس نے مودی کو وزیر اعظم بنانے سے پہلے اپنا یہ ایجنڈہ سیٹ کر لیا تھا کہ کانگریس کو اقتدار سے بے دخل کرنے کا ایک ہی فارمولہ ہے اور وہ یہ کہ نہرو خاندان پر حملہ تیز کرو ،بے بنیاد الزامات کے ذریعہ عوام کے درمیان ان کی کردار کشی کرو ،اور یہ سلسلہ نہ صرف شروع ہوا بلکہ میڈیا کو خرید خرید کر نہرو فیملی کی کردار کشی کرا ئی گئی ،ان پر بے بنیاد الزامات لگائے گئے اور اس کا کانگریس پر اثر بھی پڑا ۔پورا ملک اور خاص طور پر نوجوان نسل یہ سمجھنے بھی لگی کہ نہرو اور گاندھی نے اس ملک کے لوگوں کو بے وقوف بنایا تھا ،اور اس ملک کی بدحالی کے ذمہ دار وہی لوگ ہیں ۔آج بھی جو نوجوان مودی مودی کا نعرہ لگا رہے ہیں وہ بے وقوفوں کی جنت میں سیر کر رہے ہیں۔ وہ اپنے آس پاس کھڑے نعرہ لگانے والوں کو بھی غور سے دیکھیں تو انہیں اندازہ ہو جائے گا کہ ان نعرہ لگانے والوں میں زیادہ تر دہاڑی مزدور ہیں ۔
بی جے پی نے اس ہتھکنڈے سے دو بار مرکزی حکومت چلا تو لی لیکن اب اسے بہت ساری مشکلات پیش آ رہی ہیں ۔جس میں سب سے بڑی مشکل کانگریس ہے جسے راہل گاندھی نے ایک بار پھر جھوٹ اور سازش کے بھنور سے باہر نکال لیا ہے ۔کنہا کماری سے کشمیر تک پیدل مارچ کر کے بھی راہل گاندھی نے بھارت کے لوگوں کو یہ بتا دیا ہے کہ وہ جعلی لیڈر نہیں ہے ۔اور موجودہ سرکار کانگریس کی جتنی برائی کرتی ہے وہ جھوٹ ہے ۔لوگ کانگریس کے ہاتھ سے ہاتھ ملا رہے ہیں یہ بی جے پی کے لئے نقصاندہ ہے ۔اور اس کا یہ اثر ہو رہا ہے کہ ایک عرصہ تک کانگریس کو اپنے میدان میں ،اپنے ایجنڈے پر لڑانے والی بی جے پی اب کانگریس کے سیٹ ایجنڈے پر ناچنے کو مجبور ہے۔ پٹنہ اور بنگلور کی میٹنگ کے ساتھ ہی بی جے پی کو این ڈی اے کی یاد ستانے لگتی ہے ۔خود کو تنہا کہنے والے نریندر مودی جی کو آج این ڈی اے کی 38پارٹیوں کا اعلان کرنے کا مطلب ہے کہ وہ کانگریس اور اپوزیشن کے ایجنڈے پر چلنے کو مجبور ہیں ۔اور مجھے لگتا ہے کہ یہ بی جے پی کی پہلی شکست ہے۔
(شعیب رضا فاطمی)