دہلی کارپوریشن انتخابات 2022میں پسماندہ مسلمانوں کاکھیلا داوؤ، یوپی کے مسلم اوبی سی اجلاس کو دہلی میں بھنانے کی تیاری
عامر سلیم خان
نئی دہلی: ہندو -مسلم کے بیچ مبینہ دیوار کھڑی کرنےوالی بی جے پی اب پسماندہ کے نام پر مسلم درمسلم کرنے میں لگ گئی ہے۔دہلی کارپوریشن الیکشن 2022 میں بی جے پی پسماندہ مسلمانوں کو لبھانے والا کھیل کھیلا ہے۔ جن چار مسلم امیدواروں کو بلدیہ الیکشن میں اتارا گیا ہے انہیںپارٹی کی طرف سے پسماندہ مسلمانوں کا نام دیا گیا ہے، تاکہ مسلمانوں میںبرادری واد کے نام پر سیندھ لگائی جاسکے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے دہلی میونسپل کارپوریشن انتخابات کےلئے پسماندہ مسلم کمیونٹی کے چار افراد کو امیدواروں کے طور پر کھڑا کیا ہے، جن میں تین خواتین ہیں۔بتادیں کہ اکتوبر سے لے کر نومبر تک یوپی میں پسماندہ مسلم کے نام پربھاجپا کے چھوٹے بڑے اجلاس ہوتے رہے ہیں۔ اترپردیش میں ایک پسماندہ مسلم کو وزیر بنایاگیا تاکہ برادری واد کے نام پر مسلمانوں میں تفریق پیدا کرکے سیاسی فائدہ اٹھایا جاسکے۔
دہلی کے کارپوریشن الیکشن میںبی جے پی کے پسماندہ مسلمانوں کا ایجنڈا سامنے آچکا ہے ۔ لیکن اسمبلی اور لوک سبھاانتخا بات میں ان مسلمانوں کوٹکٹ دینے سے بی جے پی کتراتی رہی ہے۔ دہلی کے بلدیہ انتخابات میں جن چار لوگوں کو ٹکٹ دے کر بی جے پی نے اپنا امیدوار بنایا ہے ان میں چاندنی محل وارڈ سے عرفان ملک، قریش نگر سے ثمینہ راجہ، چوہان بانگر سے صبا غازی اور مصطفی آباد سے شبنم ملک کو میدان میں اتارا ہے۔ اگر امیدواروں کی بات کی جائے تووہ دعوے کررہے ہیں کہ مسلمان ہندو مسلم کے بجائے اب خدمات کی فراہمی والی سرکار چاہتے ہیں۔ لیکن یہاں یہ سوال بھی کیا جاسکتا ہے جس بی جے پی نے 2017 کے کارپوریشن الیکشن میں 7مسلم امیدواروں کو میدان میں اتارا تھا سال 2022 میں اس نے چار مسلم امیدواروں پر ہی کیوں دم توڑدیا۔ لیکن بی جے پی کے مسلم لیڈرں کے منہ میں اس سوال کاجواب بھی موجود ہے۔
دہلی بی جے پی کے ترجمان یاسر جیلانی اس بار مسلمانوں کو کم امیدوار بنانے کی توجیہ پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگرچہ ان کی پارٹی نے بہت کم تعداد میں مسلمانوں کو میدان میں اتارا ہے لیکن ہماری توجہ یہ ثابت کرنے پر مرکوز ہے کہ بی جے پی اقلیتی طبقہ کے ووٹ بھی حاصل کر سکتی ہے اور ان کی اکثریت والی سیٹیں جیت سکتی ہے۔اب بھلا ان سے کون پوچھے کہ جن ایم سی ڈی وارڈوں پر 99 فیصد مسلم آبادی ہے وہاں بی جے پی کس کو امیدوار بنائے گی؟۔بی جے پی مسلم لیڈریہ بھول جاتے ہیںکہ، مدرسہ جہاد، یوپی ایس سی جہاد، لوجہاد، ماب لنچنگ، گھر واپسی، تبلیغ جہاد، تین طلاق جیسے بے شمار اصطلاحات کے شکار مسلمانوں میں سب سے زیادہ متاثر یہی پسماندہ ہوتے ہیں ،جن پر بی جے پی داؤ لگارہی ہے۔ہندو مسلم اور ہندوؤں میں بھی برادری واد کے بعد اب مسلمانوں میں برادری واد کا کھیل کیوں کھیلا جارہاہے؟۔
بی جے پی کے ‘پسماندہ مسلم‘ کے اس پورے کھیل پر جب ہمارا سماج نے ’ آل انڈیا پسماندہ مسلم محاذ‘ کے بانی سربراہ علی انور انصاری سے بات کی تو ان کاکہنا تھاکہ پسماندہ مسلمان بی جے پی کا سیاسی ایجنڈا بخوبی سمجھ رہے ہیں۔ علی انور انصاری سابق ممبر پارلیمنٹ ہیں اور انہوں نے پہلی بار پسماندہ کا لفظ استعمال کرتے ہوئے سال 1998 میں ”آل انڈیا پسماندہ مسلم محاذ‘ تنظیم بنائی۔انہوں نے حالیہ دنوں وزیراعظم نریندر مودی کو ایک لیٹر لکھ کرپسماندہ پالیسی پر سوالات بھی اٹھائے تھے۔ مسٹر انصاری نے کہا کہ بی جے پی کے جال میں پسماندہ مسلمان پھنسنے والے نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی سیاسی فائدے کیلئے ایسے بہت سارے کھیل کھیلتی رہی ہے۔ لکھنؤ میں شیعہ -سنی کا کھیل کھیلا گیا جس کا بھرپور فائدہ بھی اٹھایا گیالیکن جب مودی جی نے اقتدار سنبھالنے کے بعد جارحانہ ہندتوا کا ایجنڈا اپنایا تو شیعہ اور سنی سبھی سمجھ گئے کہ بی جے پی کامنشاءکیا ہے۔ علی انور انصاری کہتے ہیں کہ ہر سماج میں کچھ لالچی ہوتے ہیں جو اپنی غربت کی وجہ سے کہیں بھی جاسکتے ہیں اور اسی کا فائدہ بی جے پی اٹھانا چاہتی ہے لیکن میں سمجھتاہوں کہ بی جے کے جال میں کوئی پھنسنے والا نہیں ہے۔ بہرحال اب دیکھتے ہیں کہ بی جے پی پسماندہ کے نام پر مسلم برادریوں کو بانٹنے کی کوشش کرنے میں کتنی کامیاب ہوپاتی ہے؟۔