برسوں تک مغربی نقاد برکس کو ایک غیر اہم تنظیم سمجھتے رہے تھے لیکن گذشتہ برس روس میں برکس کے سالانہ اجلاس نے اس تاثر کو غلط ثابت کیا۔کیونکہ روس میں منعقد کانفرنس میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اور 36 ممالک کے رہنماؤں کی موجودگی میں برکس نے باضابطہ طور پر چار نئے اراکین کو خوش آمدید کہا۔ ان میں مصر، ایتھوپیا، ایران اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔یہ نہایت خوش آئند خبر تھی کیونکہ 2006 میں برکس کے قیام کے بعد سے اب تک صرف 2010 میں جنوبی افریقہ کو ہی اس تنظیم کا حصہ بنایا گیا تھا لیکن ان چار ممالک کی شمولیت کے بعد ایسا لگا کہ تنظیم کے دروازے دیگر ممالک کے لیے کھلتے جا رہے ہیں۔
ایسے میں برکس، جو خود کو عالمی گورننس کے مغربی ماڈل کے متبادل کے طور پر پیش کرتی تھی ، کے حوالے سے بہت ساری امیدیں بھی وابستہ ہو گئیں کیونکہ مغربی پالیسیوں اور مالیاتی نظام سے بڑھتی ہوئی مایوسی کے درمیان برکس اپنا اثر و رسوخ اور اہمیت بڑھا رہی تھی لیکن پھر 2025میں منعقد ہونے والی برکس (BRICS) کانفرنس میں تین اہم ممالک — چین، روس اور ایران — کی غیر موجودگی عالمی سفارتی افق پر کئی سوالات کو جنم دیتی ہے۔ برکس، جو ابتدا میں ایک ابھرتی ہوئی عالمی طاقتوں کی علامت تھی، آج ایک ایسے دوراہے پر کھڑی نظر آتی ہے جہاں اس کے مستقبل، اتحاد اور اثر پذیری پر سنجیدہ سوالات اٹھ رہے ہیں۔
برکس میں چین اور روس کی حیثیت بانی ممالک کی ہے، جبکہ ایران حالیہ برسوں میں اس اتحاد کے ساتھ جڑنے والے سب سے اہم ملک کے طور پر سامنے آیا ہے۔ ان تینوں ممالک کی عدم شرکت نہ صرف علامتی طور پر بلکہ عملی لحاظ سے بھی برکس کی وحدت، مقصد اور عالمی اثرات پر اثر انداز ہوتی ہے۔
چین کی غیر موجودگی کو امریکی و یورپی اثرات کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی جنگ، تائیوان تنازع اور جنوبِ بحیرہ چین کی کشیدگی، چین کو عالمی پلیٹ فارمز پر اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی پر مجبور کر رہی ہے۔ برکس میں اگر وہ شامل نہیں ہوتا تو یہ اشارہ دیتا ہے کہ بیجنگ اس اتحاد کو فی الحال اپنے مفاد میں مؤثر نہیں سمجھ رہا۔
روس کی غیر حاضری یوکرین جنگ اور اس کے بعد مغربی دنیا کی شدید پابندیوں کے تناظر میں خاص اہمیت رکھتی ہے۔ ماسکو کی بین الاقوامی تنہائی اور داخلی دباؤ اس کی خارجہ پالیسی کو محدود کر رہے ہیں۔ برکس میں اس کی عدم شرکت اس بات کا عندیہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ اپنی خارجہ ترجیحات میں تبدیلی لا رہا ہے یا پھر برکس میں موجود بعض نئے یا پرانے رکن ممالک کے ساتھ اختلافات پائے جاتے ہیں۔
ایران، جس نے برکس میں شمولیت کے بعد اسے مغربی بالادستی کے متبادل کے طور پر دیکھا تھا، اس کا غیر حاضر ہونا حیران کن ہے۔ ایران کا عدم شرکت ممکنہ طور پر موجودہ علاقائی تنازعات، داخلی چیلنجز یا سعودی عرب، بھارت جیسے دیگر رکن ممالک سے پالیسی اختلافات کی علامت ہو سکتا ہے۔
اس کانفرنس کی میزبانی اگر بھارت یا اس کے کسی قریبی ملک نے کی ہو، تو چین، روس اور ایران کی غیر موجودگی کو دہلی کی ایک سفارتی جیت یا چالاکی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ برکس میں بھارت کی پوزیشن مستحکم ہو رہی ہے، اور وہ اس پلیٹ فارم کو ایک "گلوبل ساؤتھ” کی قیادت کا موقع سمجھتا ہے۔ ایسے میں بڑے حریفوں کا غیر حاضر ہونا اسے خود کو نمایاں کرنے کا موقع دیتا ہے۔
یہ سوال اب زیادہ زور سے اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا برکس اپنی ابتدائی روح اور مقاصد سے دور ہو چکا ہے؟ چین، روس اور ایران جیسے ممالک کی عدم دلچسپی یہ ظاہر کرتی ہے کہ اتحاد کی نظریاتی ہم آہنگی متاثر ہو چکی ہے۔ اگر برکس کا ہر رکن اپنے قومی مفادات کو فوقیت دیتا رہا تو یہ تنظیم ایک بے جان پلیٹ فارم میں تبدیل ہو سکتی ہے۔
برکس کی موجودہ صورتحال عالمی طاقتوں کی بدلتی ترجیحات اور نئے عالمی اتحادوں کی تشکیل کا پیش خیمہ ہے۔ چین، روس اور ایران کی غیر موجودگی نہ صرف ایک وقتی سفارتی رخ ہے بلکہ ممکن ہے کہ یہ برکس کے مستقبل پر گہرے اثرات مرتب کرے۔ کیا برکس ایک مشترکہ ترقی کا خواب بن کر رہ جائے گا یا پھر اندرونی تضادات کے باوجود نئی جہتوں میں ابھرے گا؟ یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔