شعیب رضا فاطمی
کہتے ہیں کہ ہندوستان کا آئین دنیا کے سب سے عظیم جمہوری دستاویزات میں شمار ہوتا ہے۔ اس آئین نے ہر شہری کو زندگی، آزادی، مساوات اور انصاف کی ضمانت دی ہے۔ لیکن موجودہ دور میں یہ سوال اٹھنے لگا ہے کہ کیا یہ ضمانتیں کاغذی عبارت سے آگے بھی کوئی حیثیت رکھتی ہیں یا پھر صرف تقریروں اور جشنِ یومِ جمہوریہ تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں؟ کیونکہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ آج انصاف کی کرسی پر عدالت نہیں بلکہ بلڈوزر بیٹھا ہوا نظر آتا ہے۔
یہ کسی بھی جمہوریت کے لئے سب سے بڑا المیہ ہے کہ الزام لگنے کے ساتھ ہی سزا دے دی جائے۔ انتظامیہ اور سیاست دانوں نے یہ نیا اصول وضع کر لیا ہے کہ جب کوئی احتجاج ہو یا کوئی تنازع کھڑا ہو تو عدالت کا انتظار کیوں کیا جائے؟ مقدمہ دائر ہونے دو یا نہ ہونے دو، ثبوت ہوں یا نہ ہوں، جج بیٹھے یا نہ بیٹھے، فیصلہ اب بلڈوزر سنائے گا۔ چند گھنٹوں میں نوٹس، چند دنوں میں انہدام اور خاندان برسوں کے لئے بے گھر۔ ایسا لگتا ہے جیسے انصاف اب عدالتی کمروں میں نہیں بلکہ بلڈوزر کے شور میں دفن ہو گیا ہے۔
اتر پردیش اس نئی "پالیسی” کا سب سے بڑا تجربہ گاہ بن چکا ہے۔ جون 2022 میں الہ آباد (پریاگ راج) میں معروف سماجی کارکن جاوید محمد کا مکان منہدم کر دیا گیا۔ الزام یہ تھا کہ وہ احتجاج کو ہوا دے رہے تھے۔ مقدمہ ابھی عدالت میں زیرِ سماعت تھا لیکن گھر گرانے میں اتنی عجلت دکھائی گئی گویا انصاف کے سارے تقاضے پوری رفتار سے مکمل ہو گئے ہوں۔ یہ سوال آج بھی زندہ ہے کہ اگر مکان واقعی غیر قانونی تھا تو وہ برسوں تک کیسے کھڑا رہا؟ اور اگر غیر قانونی نہیں تھا تو محض احتجاج کی سزا میں ایک پورے خاندان کو بے گھر کیوں کر دیا گیا؟
مدھیہ پردیش میں کھرگون اور کھنڈوا جیسے شہروں میں فسادات کے بعد انتظامیہ نے یکطرفہ کارروائی کرتے ہوئے ایک ہی طبقے کے گھروں پر بلڈوزر چلایا۔ انتظامیہ نے اسے "غیر قانونی تعمیر” کا نام دیا، مگر یہ محض ایک قانونی جواز تراشا گیا تاکہ اصل مقصد چھپایا جا سکے۔ اصل مقصد یہ تھا کہ طاقت کا مظاہرہ کیا جائے اور ایک خاص برادری کو خوفزدہ کر کے خاموش کر دیا جائے۔ یہ اجتماعی سزا کسی بھی مہذب جمہوری معاشرے کے منہ پر طمانچہ ہے۔
2022 میں دہلی کے جہاںگیر پوری میں بھی بلڈوزر ایکشن کیا گیا۔ خاص بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے فوری طور پر حکمِ امتناع جاری کیا، مگر زمین پر بلڈوزر کے دانت کئی ڈھانچوں کو چاٹ چکے تھے۔ سوال یہ ہے کہ اگر عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کو بھی انتظامیہ نظر انداز کر دے تو پھر عام شہری کس دروازے پر انصاف کی دہائی دے؟ یہ منظر صاف بتاتا ہے کہ زمین پر اصل حاکمیت آئین یا عدالت کی نہیں بلکہ بلڈوزر کی ہے۔
سپریم کورٹ کے کئی تاریخی فیصلے ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ انصاف کے بغیر طاقت ظلم ہے۔
Olga Tellis vs Bombay Municipal Corporation (1985) میں عدالت نے کہا کہ کسی کو بے گھر کرنا اس کے حقِ زندگی پر براہِ راست حملہ ہے۔
Maneka Gandhi vs Union of India (1978) میں یہ
اصول طے ہوا کہ کوئی بھی اقدام "Due Process of Law” کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ لیکن آج ان فیصلوں کو یوں نظرانداز کیا جا رہا ہے جیسے یہ کوئی قصہ کہانی ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ اب "Rule of Law” کو بدل کر "Rule by Bulldozer” نافذ کر دیا گیا ہے۔ بلڈوزر کا استعمال صرف انتظامی کارروائی نہیں بلکہ ایک سیاسی ہتھیار بھی ہے۔ انتخابی ریلیوں میں مکان بنانے کے وعدے کئے جاتے ہیں، اور احتجاج یا اختلاف کی صورت میں انہی مکانوں کو زمین دوز کر دیا جاتا ہے۔ یہ تضاد چیخ چیخ کر بتا رہا ہے کہ بلڈوزر انصاف کے لئے نہیں بلکہ سیاسی پیغام رسانی کے لئے استعمال ہو رہا ہے۔ عوام کو ڈرایا جا رہا ہے کہ حکومت کے خلاف زبان کھولو گے تو تمہاری چھت چھن جائے گی۔گھر منہدم کرنے کا مطلب صرف دیواروں کو گرانا نہیں ہوتا، بلکہ پورے خاندان کو بے گھر کر دینا ہے۔ بچے بے سہارا ہو جاتے ہیں، خواتین پریشانیوں میں مبتلا ہو جاتی ہیں اور بزرگ اپنے بڑھاپے میں بے بسی کے کرب سے دوچار ہوتے ہیں۔ یہ صرف ایک مکان نہیں ٹوٹتا بلکہ عزت، سکون اور مستقبل کی بنیادیں ہل جاتی ہیں۔ یہ سزا عدالت کے بغیر دینا کسی بھی طرح انصاف نہیں بلکہ کھلی ناانصافی ہے۔یہ صورتحال اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ عدلیہ، قومی انسانی حقوق کمیشن اور دیگر آئینی ادارے اپنی خاموشی توڑیں۔ اگر آج بلڈوزر کو عدالت سے اوپر بٹھا دیا گیا تو کل آئین کی کوئی شق محفوظ نہیں رہے گی۔ جمہوریت کا مطلب یہی ہے کہ قانون سب کے لئے برابر ہو۔ اگر ایک طبقے کو خاص طور پر نشانہ بنایا جاتا ہے تو یہ مساوات نہیں بلکہ امتیاز ہے، اور امتیاز جمہوریت کا گلا گھونٹ دیتا ہے ۔
حقیقت یہی ہے کہ بلڈوزر اب محض تعمیراتی مشین نہیں رہا، بلکہ سیاسی طاقت کا نیا نشان بن چکا ہے۔ عوام کے لئے پیغام بالکل واضح ہے: ووٹ دو گے تو مکان بنانے کے خواب دکھائے جائیں گے،آواز اٹھاؤ گے تو مکان کو ملبہ میں تبدیل کر دیا جائے گا۔
یہ وہی ہندوستان ہے جہاں بابا صاحب امبیڈکر نے آئین کی بنیاد ڈالی تھی۔ یہ وہی ملک ہے جہاں جواہر لال نہرو نے کہا تھا کہ "ہم ایک عظیم جمہوری روایت کے وارث ہیں”۔ لیکن آج حالات یہ ہیں کہ جمہوریت کی جگہ بلڈوزر راج نے لے لی ہے۔
کیا یہ وہی جمہوریت ہے جس کا خواب ہمارے رہنماؤں نے آزادی کے وقت دیکھا تھا؟ یا پھر اب یہ جمہوریت ایک نئے ماڈل میں تبدیل ہو گئی ہے جس کا ترجمہ یوں کیا جا سکتا ہے:
“حکومت کی مرضی کے خلاف جینا جرم ہے، اور اس جرم کی سزا ہے… بلڈوزر!”