نئی دہلی، دہلی ہائی کورٹ نے بدھ کے روز دہلی وقف بورڈ کے چیئرمین امانت اللہ خان اور ان کے ساتھ گرفتار ہونے والے 10 دیگر افرادکو سی بی آئی کے ذریعہ بورڈ میں تقرریوں میں بے ضابطگیوں کا الزام لگانے والے ایک کیس میں باقاعدہ ضمانت دے دی۔اس خبر کے آنے کے بعد دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کجریوال کی یہ بات سچ ثابت ہو رہی ہے کہ مرکزی ایجنسیاں سرکار کے اشارے پر عاپ سرکار کی ترقیاتی رفتار پر بریک لگانے کے مشن پر کام کر رہی ہیں ۔سیاسی انتقام کا یہ ماحول پورے ملک میں ہے اور آج حالت یہ ہے کہ مرکزی حکومت کی تمام ایجنسیوں کا ایک ہی ٹارگیٹ ہے کہ کسی بھی طرح اپوزیشن پارٹیوں کو تفتیش کے بہانے ڈرایا جائے اور انہیں کام کرنے سے روکا جائے ۔امانت اللہ خاں تو ویسے بھی بی جے پی کے لئے تر نوالہ ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ ان کا مسلمان ہونا ہے اور سونے پر سہاگہ یہ کہ وہ دہلی وقف بورڈ کے چئیر مین ہیں اور وقف پر ناجائز قبضہ کو واگذار کرنے کی انتھک جدو جہد کر رہے ہیں ۔ان کو ضمانت دیتے ہوئے کورٹ نے یہ وضاحت کیا کہ ملزمان کی ضمانت مسترد کرنے یا انہیں تحویل میں لینے کی کوئی وجہ نہیں ہے ۔ خصوصی جج ایم کے۔ ناگپال نے کہا کہ ان کی ضمانت کی درخواست پر کیس کی جملہ شہادتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے غور کیا گیا۔
واضح ہو کہ سی بی آئی نے 2016 میں ممبر اسمبلی اور چیئرمین دہلی وقف بورڈ پر یہ الزام لگایا تھا کہ مسٹر خان نے بدعنوانی کرتے ہوئے غیر قانونی طریقے سے محبوب عالم کو دہلی وقف بورڈ کا سی ای او مقرر کیا تھا۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ اوکھلا سے عام آدمی پارٹی کے ایم ایل اے مسٹر خان نے بعد میں اپنے رشتہ داروں اور دیگر جاننے والے لوگوں کو بورڈ میں مختلف کنٹریکٹ یا یومیہ اجرت کے عہدوں پر تعینات کیا جو قانون کے مناسب عمل کی پیروی کیے بغیر ہے۔ایجنسی نے ان پر آئی پی سی سیکشن 120 بی کے تحت ایک ایف آئی آر درج کی، جسے کرپشن کی روک تھام ایکٹ 1988 کی دفعہ 13(2) اور 13(1)(d) کے ساتھ پڑھا گیا۔ تنخواہوں یا دیگر مراعات کی صورت میں سرکاری خزانے کو 27.2لاکھ کا نقصان پہنچانا، جو مذکورہ ملازمین یا ملزمان کو ادا کیا گیا تھا۔لیکن اس کی نہ تو کوئی شہادت ملی اور نہ ہی کوئی برآمدگی ہوئی واضح ہو کہ سی بی آئی نے مسٹر خان، مسٹر عالم اور نو دیگر ، حامد اختر، کفایت اللہ وغیرہ پربد عنوانی کا الزام لگا کر انہیں گرفتار کیا تھا ۔
اس سلسلے میں دہلی ہائی کورٹ نے ان سب کی درخواست ضمانت کو منظور کرتے ہوئے فیصلے میں کہا کہ عام آدمی پارٹی کے ایم ایل اے اور دہلی وقف بورڈ کے چیئرمین امانت اللہ خان روشن خان، عمران علی، محمد احرار، عاقب جاوید، اظہر خان، ذاکر خان اور عبد المنار – مجرمانہ سازش رچنے کاجو الزام تھا، اس میں انہیں ضمانت دی جاتی ہے ۔گزشتہ نومبر میں عدالت نے ایف آئی آر کا نوٹس لیتے ہوئے ملزمان کو طلب کیا تھا۔ اور ان کی پیشی کے بعد، ملزمان کو ان کی باقاعدہ ضمانت کی درخواستوں کے نمٹانے تک ذاتی مچلکے پر رہا کر دیا گیا تھا۔بدھ کے روز اپنے حکم میں، عدالت نے لکھا کہ مبینہ تقرریوں کے سلسلے میں کسی بھی درخواست دہندہ کے خلاف رشوت کی مانگ، ادائیگی یا قبولیت کا کوئی الزام ثابت نہیں ہوا ۔کورٹ نے مزید کہا کہ تمام ملزمان تحقیقات میں تعاون کر رہے ہیں۔مزید برآں کسی بھی درخواست دہندگان سے کسی رقم کی وصولی کے بارے میں نہیں بتایا گیا ہے اور چونکہ کوئی رشوت نہیں دی گئی تھی، اس لیے کسی بھی درخواست دہندہ سے اس کی وصولی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔