دہلی وقف بورڈ کے ائمہ کرام کو تنخواہ جاری کرنےوالے سپریم کورٹ کے1993کے فیصلے کےخلاف بیان پر ہتک عزت کا ہوسکتا ہے مقدمہ
عامر سلیم خان
نئی دہلی ، سماج نیوز سروس: مساجد کے اماموں کو تنخواہ دینے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف تبصرے بازی سے ملک کے انفارمیشن کمشنر (سی آئی سی) اودے مہورکر کی مشکلیں بڑھ سکتی ہیں۔ سپریم کورٹ کے ایک وکیل ’ایڈوکیٹ آن ریکارڈ‘نے مہورکر کےخلاف توہین عدالت کی مجرمانہ کارروائی شروع کرنے کا مطالبہ کیاہے۔ اس کےلئے وکیل نے اٹارنی جنرل کو سی آئی سی کمشنر کیخلاف مقدمہ قائم کرنے کیلئے ان کی رضامندی کےلئے درخواست دائر کی ہے۔ اٹارنی جنرل کو دی گئی عرضی میں ایڈوکیٹ تپن کمار دیو نے سی آئی سی کےلئے عرض کیا ہے کہ ’مذکورہ (انفارمیشن کمشنر) شخص قانون کی باریکیوں کو سمجھنے کےلئے قانون کی ڈگری سے فارغ التحصیل بھی نہیں ہے۔ انہوں نے سپریم کورٹ کی طرف سے ائمہ کی تنخواہوں کو جاری کرنے کیلئے سنائے گئے فیصلے کو آئین کی خلاف ورزی اور غلط نظیر قائم کرنے والا قرار دیا ہے۔
بتادیں کہ1993 میں سپریم کورٹ نے ’آل انڈیا امام آرگنائزیشن‘ کے صدر مولانا جمیل احمد الیاسی کی عرضی پر دہلی وقف بورڈکے زیر انتظام مساجد کے اماموں کو تنخواہ ادا کرنے کا حکم دیا تھا۔ موجودہ دنوں آل انڈیا امام آرگنائزیشن کے صدر مولانا عمیر احمد الیاسی ہیں۔ دہلی کی طرح وقف بورڈ ہریانہ اور کرناٹک سمیت کچھ دیگر ریاستوں میں بھی وقف بورڈ کے تحت مساجد کے اماموں کو تنخواہ دی جاتی ہے۔ بتا دیں کہ مرکزی انفارمیشن کمشنر اودے مہورکر نے ایک آر ٹی آئی کارکن سبھاش اگروال کی درخواست پر سماعت کے بعد اماموں کی تنخواہ پر سپریم کورٹ کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دے ڈالا۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس دہندگان کا پیسہ کسی ایک مذہب کے فروغ کیلئے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ مہورکر نے اپنے حکم کی ایک کاپی مرکزی وزیر قانون کو بھیجنے کی ہدایت دی، تاکہ آئین کے آرٹیکل 25 سے 28 پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جاسکے۔
انفارمیشن کمشنر مہورکر نے حکم نامہ میں کہا کہ 13 مئی 1993 کو سپریم کورٹ کے فیصلے نے مساجد کے اماموں اور مو¿ذنوں کےلئے سرکاری خزانے سے مالی فوائد حاصل کرنے کا راستہ کھول دیاہے۔ کمیشن کا موقف ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آئین کے آرٹیکل 27 کی خلاف ورزی ہے۔ صرف مساجد کے اماموں اور دیگر کو معاوضہ دینا نہ صرف ہندو طبقے بلکہ دیگر غیر مسلم اقلیت کے افراد کے ساتھ بھی غداری ہے۔انفارمیشن کمشنر مہورکر نے کہا کہ دہلی وقف بورڈ کو دہلی حکومت سے تقریباً 62 کروڑ روپئے کی سالانہ گرانٹ ملتی ہے،جبکہ آزاد ذرائع سے اس کی اپنی ماہانہ آمدنی تقریباً 30 لاکھ روپئے ہے۔ دہلی میں وقف بورڈ کے مساجد کے اماموں اور موذنوں کو بالترتیب 18,000 اور 16,000 روپئے ماہانہ اعزازیہ دیا جا رہا ہے۔ اس کے برعکس، ایک ہندو مندر کے پجاری کو مندر کو کنٹرول کرنے والے ٹرسٹ سے صرف 2000 روپے ماہانہ مل رہے ہیں اس لئے یہ ہندو طبقے کیخلاف اعتماد شکنی کامعاملہ بنتاہے۔چونکہ معاملہ میں ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ کے 1993 کے حکم پر چیف انفارمیشن کمشنر کامعاندانہ تبصرہ سامنے آیا ہے ،اس پر وکیلوں کا غصہ ہونا لازمی ہے اور اسی لئے اٹارنی جنرل آف انڈیاآر وینکٹ رمانی سے مقدمہ کی اجازت مانگی گئی ہے، جس میں انفارمیشن کمشنر، سی آئی سی اودے مہورکر کےخلاف مجرمانہ توہین کی کارروائی شروع کرنے کےلئے ان کی رضامندی طلب کی ہے، یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ انہوں نے انفارمیشن کمشنر کے اختیارات کو کم کر دیا ہے۔ دوسری طرف بورڈ ذرائع کی مانیں تو اماموں کی تنخواہ اماموں اور موذنو ںکو نہیں دیجاتی ہے بلکہ وقف جائیدادوں سے آنے والے کرائے سے اماموں کی تنخواہ ادا کی جاتی ہے۔ جبکہ حکومت سے ملنے والے فنڈ سے ان وقف بورڈ کے اہلکاروں کو تنخواہ دیجاتی ہے۔ بہرحال سی آئی سی اودے مہورسپریم کورٹ کیخلاف بیان دے کر برے پھنس چکے ہیں۔