تہران:تہران میں ایک نئے سروے کے مطابق ایران میں عوام کی ناراضی اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ صدارتی ادارے کی جانب سے کرائے گئے اس سروے میں بتایا گیا ہے کہ ملک کی مجموعی صورت حال سے عدم اطمینان کی شرح تقریباً 92 فیصد تک پہنچ گئی ہے، جو شہریوں اور حکام کے درمیان بڑھتی ہوئی بداعتمادی کی نشاندہی کرتی ہے۔صدارتی ادارے کے سماجی مشیر اور مرکز برائے عوامی رابطہ کے سربراہ محمد جواد جوادی یگانہ کے مطابق سروے کے نتائج یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اکثریت نے مقامی حکام اور پارلیمان کے ارکان کی کارکردگی کو کمزور قرار دیا۔یہ سروے صدر مسعود پزیشکیان کے سولہ صوبوں کے دوروں کے دوران کیا گیا، تاکہ عوامی اطمینان اور مقامی حکام کی کارکردگی کا جائزہ لیا جا سکے۔ نتائج سے ظاہر ہوا کہ علاقائی حکام کی کارکردگی کو شہریوں نے "کمزور” یا درمیانی قرار دیا جبکہ تقریباً 59 فیصد شرکاء نے پارلیمان کے ارکان کی کارکردگی ناقص قرار دی۔ایرانی ویب سائٹ "رویداد 24 کے مطابق عوامی ناراضی کی 92 فیصد شرح یہ ظاہر کرتی ہے کہ حتیٰ کہ سرگرم حکومتیں بھی عوامی اعتماد کی شدید کمی کا سامنا کر رہی ہیں، جس کے باعث اصلاحات کا نفاذ مزید مشکل ہو گیا ہے۔معاشی بحران کے بڑھتے دباؤ کے دوران صدر ایران مسعود پزیشکیان نے گذشتہ منگل پارلیمان کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت کے لیے عوامی معاشی مسائل اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ ان کے بہ قول "ہم اس وقت تک حکومت نہیں کر سکتے جب تک عوام بھوکے ہوں”۔انہوں نے کہا کہ موجودہ سال کے بجٹ میں شہریوں کی زندگی کو اولین ترجیح دی جانی چاہیے۔ ان کے مطابق اگر حکومت معاشی بحران کا حل نہ نکال سکی تو یہ اس کی ناکامی اور غلط سمت کی علامت ہوگی۔مقامی رپورٹس کے مطابق مغربی پابندیوں نے ایران کی معیشت کو شدید متاثر کیا ہے۔ تیل کی برآمدات میں کمی اور مقامی کرنسی کی گراوٹ نے حالات مزید خراب کیے ہیں۔ ایرانی ریال نے اپنی قدر کا 59 فیصد کھو دیا ہے جبکہ افراط زر 40 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے۔ماہرین کے مطابق ایران کو بنیادی معاشی اصلاحات اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ معیشت کے زوال کو روکا جا سکے اور نسلی، سماجی اور سیاسی کشیدگی میں اضافہ نہ ہو۔یہ صورت حال ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب تہران اور واشنگٹن کے درمیان مذاکرات کی بحالی کے امکانات غیر واضح ہیں۔ 13 جون کو شروع ہونے والی ایران۔اسرائیل جنگ بارہ دن جاری رہی جس کے نتیجے میں دونوں ممالک اور خطے پر گہرے سیاسی، سکیورٹی اور اقتصادی اثرات مرتب ہوئے۔تجزیہ کاروں کے مطابق یہ مختصر مگر مہنگی جنگ مذاکراتی عمل کو پیچیدہ بنا گئی ہے۔ امریکہ کی جانب سے ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے کے بعد واشنگٹن محتاط ہو گیا ہے جبکہ تہران داخلی چیلنجز اور پابندیوں کے اثرات سے نمٹنے میں مصروف ہے۔ماہرین کے مطابق موجودہ ایرانی حکومت بیرونی دباؤ اور اندرونی بحرانوں کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن مذاکرات کے مستقبل پر چھائی غیر یقینی فضا اقتصادی بحالی کی امیدوں کو محدود کیے ہوئے ہے اور منڈیوں کو غیر یقینی کیفیت میں رکھتی ہے۔
اقتصادی اعداد و شمار کے مطابق ایران میں گذشتہ ایک سال کے دوران خط غربت 30 فیصد بڑھ گیا ہے، جس کے نتیجے میں زیادہ تر گھرانے اپنی قوتِ خرید کھو چکے ہیں۔ایرانی ماہرینِ معیشت کے مطابق ملک کی تقریباً 40 فیصد آبادی خطِ غربت کے نیچے زندگی گزار رہی ہے جبکہ سرکاری اعداد کے مطابق بے روزگاری 12 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے، خصوصاً سرحدی علاقوں میں یہ شرح کہیں زیادہ ہے۔غیر سرکاری اندازوں کے مطابق افراط زر 40 فیصد سے زیادہ ہے، جس نے خوراک، ایندھن اور رہائش کے اخراجات میں زبردست اضافہ کر دیا ہے۔یہ نازک معاشی صورتحال پابندیوں کے تسلسل اور غیر یقینی سیاسی ماحول کے ساتھ مل کر عوامی ناراضی میں اضافہ کر رہی ہے۔ صدارتی سروے نے واضح کر دیا ہے کہ حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج عوامی اعتماد بحال کرنا اور معیشت کو مستحکم رکھنا ہے۔












