سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں ججوں کی تقرری کے معاملے پر حکومت اور کالجیم میں اختلافات نئی بات نہیں ہے۔ کئی با ر ایسا ہوا کہ دونوں میںیہ اختلاف ختم بھی ہوا ،لیکن اس بار یہ کافی طول پکڑ گئے ہیں جو کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہے ہیں ٹکرائو کافی بڑھ گیا ہے ۔یہ اس وقت زیادہ گہرا نظر آیا جب حکومت نے کالجیم سے اپنے نمائندے کی شمولیت کا مطالبہ کرنا شروع کیا ۔حکومت چاہتی ہے کہ کالجیم میں اس کی بھی نمائندگی ہو کیونکہ وہ کالجیم نظام سے مطمئن نہی ہے ۔سوال یہ ہے کہ یہ ٹکرائو دورکیسے ہو!جب اختلافات برقرار رہیں ؟ابھی کچھ دن قبل ہی وزیر قانون کرن رججو نے سپریم کورٹ کو خط لکھ کرحکومت کا منشا رکھا تھا ،کہ اب انہوںنے ہائی کورٹ کے سابق جج کا وہ انٹر ویو شیئر کیا ہے جس میں سابق جج سوڑھی سپریم کورٹ پر سنگین الزام عائد کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ نے خود ججوں کی تقرری کا فیصلہ کر کے ’’آئین کو ہائی جیک‘‘ کر لیا ہے !۔ حالانکہ دوسری جانب حکومت یہ بھی کہہ رہی ہے کہ اختلافات ہو ں ،لیکن’ من بھید‘ دلوں میں فرق نہیں ہو۔ اس دوران کر ن رججو دہلی کی ایک عدالت میں حکومت کے موقف کی تائید کرتے ہوئے بھی نظر آئے۔انہوں نے ایک دن پہلے یہ بھی کہا ہے کہ اس مسئلے پر اکثر لوگوں کے خیالات ایک جیسے ہیں اور جو لوگ اس فیصلے کی مخالفت کررہے ہیں وہ آئین کے التزامات کو نظر انداز کرتے ہیں۔ رججو کے تازہ خیالات سے حکومت کا موقف واضح ہے کہ وہ اپنے فیصلہ پر اٹل ہے بلکہ عوامی حمایت مانگ کر خود کو اپنے موقف پر مضبوط ثابت کرنا چاہتی ہے ۔لیکن سپریم کورٹ کا فیصلہ کیا ہوگا اس کاابھی انتظار کرنا چاہئے۔یہ بات الگ ہے کہ اس کے اعتراضات برقرار ہیں۔در اصل اس وقت مسئلہ تنہا ججوں کی تقرری کا نہیں ہے جس سے سپریم کورٹ کا کالجیم برہم ہے ،بلکہ اس کی ایک شکایت ججوں کے انتخاب میں حکومت کی مبینہ مرضی اور نکتہ چینی کی ہے جس کا الزام عائد کیا جاتا رہاہے ۔غلط نہیں کہ ججوں کی تقرری میں تاخیر سے اس کا راست اثرعدلیہ کے نظام پر بھی ہوتا ہے،اور جج کی تقرری میں کوئی فیصلہ نہ لئے جانے سے کام کا بوجھ دیگر ججوں پر پڑتا ہے جس سے فیصلوں میں تاخیر ہوجاتی ہے ۔ یہ ایک ایسا سلسلہ ہے کہ جس سے انصاف کا عمل متاثر ہونا فطری بات ہے ۔
اس میں شک نہیں کہ اس وقت سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں ججوں کی کمی کی وجہ سے عدالتوں میں زیرالتوا معاملے عدلیہ کیلئے مسئلہ بنے ہوئے ہیں تو دوسری جانب انصاف کے منتظر جیل میں بند قیدیوں کیلئے طویل انتظار کا باعث بھی! ۔کہا جاتا ہے کہ انصاف جلدہو ،تبھی وہ انصاف کہلاتا ہے ۔لیکن جب نظام کے متاثر ہونے سے انصاف کا عمل ہی ڈگمگانے لگے گا تو عدلیہ پر عوام کا اعتماد بھی کمزور ہوگا اور لوگوں کیلئے تاخیر کا سبب بھی بنے گا۔قابل ذکر ہے کہ یہ تنازع اس وقت شروع ہوا جب این جے اے سی ایکٹ لاکر حکومت نے 1992میں وجود میں آنے والے کالجیم نظام کو پلٹنے کی کوشش کی اورحال ہی میںرججو نے اس نظام کو ہندوستانی آئین کے لئے غیر ملکی قرار دے کر اس کی مخالفت کا برملااظہار بھی کیا۔ سپریم کورٹ کو اس بات کا اندیشہ ہے کہ اس سے اس کا اختیار متاثر ہوگا ۔ادھر دیکھاگیا کہ کالجیم سپریم کورٹ اورہائی کورٹ کے ججوں کے تقرر میں تاخیر پر حکومت سے اکثر شاکی رہتا ہے۔ لیکن اب یہ شکوہ ٹکراء کی حد تک بڑھ گیا ہے ۔اس ٹکرائو کو ختم کرنے کی کوشش ہونی چاہئے کیونکہ ٹکرائو کا راستہ اپنانے سے فائدہ نہیں ہوتا ۔پچھلے کچھ دنوں سے دونوں جس اختلاف کے راستے پر کھڑے دکھائی دے رہے ہیں وہ جمہوریت کے حق میں نہیں ہے۔حکومت کو عدلیہ کی آزادی کا بہر صورت خیال رکھنا ہے ،آئینی ادارے سے متصادم ہونا ٹھیک نہیںیہ دخل اندازی کے راستہ دکھا تا ہے ۔ اگر ہندوستانی جمہوریت کا اصل حسن اس کی کامیابی ہے ، تو اس کے حسن کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنا بھی ٹھیک نہیں ۔حکومت کی جماعت کا پارلیمنٹ میں جو کردار ہوتا ہے وہ مقننہ میں تو ہو سکتا ہے ،عدلیہ میں نہیں ہوسکتا ۔عدلیہ آزاد رہنی چاہئے ۔کوئی قانون عوام کے منتخب نمائندے تو بناتے ہیں لیکن وہ نمائندگی پارلیمنٹ کے علاوہ عدلیہ میں نہیں ہو سکتی ! ورنہ یہ اس کسی آزادی میں مداخلت کہی جائے گی!۔