سےد مجاہدحسین
ہمارے ملک میں ناگہانی حادثات اکثر و بیشتر پیش آتے رہتے ہیں ،لیکن کچھ حادثات اتنے دلخراش ہوتے ہیں کہ ان کو بھلا پانا آسان نہیں ہوتا ،اتوار کے دن گجرات میں جو دل دہلا دینے والا حادثہ پیش آےا ہے ،اس نے سبھی کو جھنجوڑ کر رکھ دےا ہے۔ڈیڑھ سو افراد پلک جھپکتے میں لقمئہ اجل بن گئے،سبھی لوہے کے تار سے بنے ایک پل کے اچانک ٹوٹ جانے سے موت کے منھ میں سما گئے ۔ایک طرف اس سانحے نے پورے ملک کو غم زدہ کر کے رکھ دیاہے ، لو گ اپنوں کے کھوجانے سے اور بچھڑ جانے سے غم میں ڈوبے ہوئے ہیں تو وہیں مرکزی اوررےاستی حکومت اس پورے حادثہ پر لیپا پوتی میںلگ گئی ہے ۔حادثہ کے فورا بعد رےاستی حکومت کی طرف سے تعزےتی اور مذمتی بےانات دئے گئے، بچاؤ اور راحتی کاموں کو بڑھ چڑھ کر بےان کیا جارہا ہے ، الزامات سے پلہ جھا ڑا جا رہا ہے اور حادثہ کے لواحقین کو معمولی معاوضہ کا اعلان کر کے اس کوبھاری بھرکم ظاہر کیا جارہا ہے ، خاطےوں کو سزا ددئے جانے کا بھروسہ دلایا گےا ، ان سب سے لگتا ہے کہ مرنے والوں کی موت کا غم کم ،جبکہ اپنی گردن بچانے کی فکرزےادہ ہے !۔
یقینا،حکمراں جماعت بی جے پی اس حادثہ کے بعد سوالوں کے گھیرے میں ہے۔لوگ پوچھ رہے ہیں کہ سو لوگوں کا بار سہارنے والے اس پل پر چارسو سے زائد لوگ کو جانے کی کیوں اجازت دی گئی ؟ پل پر پولس کا ےا بچاؤ ٹیموں کا بندوبست تھا ےا نہیں ،پل کو بغیر سوچے سمجھے کیسے کھول دےا گیا،کیا الیکشن نزدیک آرہے ہیں صرف اسلئے ، یہ قدم اٹھاےا گےا؟
در حقیقت،گجرات میں موربی حادثہ کے بعد لوگوں کی زندگےا بکھر گئیں ،لوگ اپنے جگر کے ٹکڑوں سے جدا ہوگئے ،بچے مائیں اور بہنیں اپنوں سے رخصت ہوگئے ،معصوموں کی تعداد کہیں زےادہ ہے ،کئی کی لاشیں ندی سے نکال لی گئی ہیں تو بے شمار اب بھی لاپتہ ہیں،جو اپنوں سے جدا ہوگئے ان کی تلاش کیسے ہوگی اور یہ کب تک پوری ہوسکے گی ، یہ ایک بڑا سوال ہے ،اس کا جواب کس کے پاس ملے گا؟ کیاحکومت اپنے بچاؤ مہم اور معاوضہ وغیر بعجلت تمام دینے کا اعلان کر کے یہ ثابت کرنے میں لگی ہے کہ اسے رےاست کے کچھ لوگوںکاخیال ہے جبکہ اس عجلت سے تو یہی لگتا ہے کہ اس سے اپنی خامیوںاور بد عنوانی کو چھپانے کی کوشش ہو رہی ہے!۔بلا شبہ اپوزیشن لیڈروں کو بھی اس سانحہ پر کوئی ساست نہیں کرنا چاہئے بلکہ راہل گاندھی کے مطابق انہیں غمزدہ لوگوںں کو سنبھالنے میں آگے آنا چاہئے اور بچاؤ کے کاموں میں لگنا چاہئے۔ لیکن مودی ھوکمت سے سوال یہ ہے کہ آخر وہ سب کیا تھا، جب بنگال میں ایک پل ٹوٹنے کے بعد مر کزی قےادت کی جانب سے بنگال حکومت پر طنز کسا جارہا تھا!۔
اپوزیشن اس وقت وزیر اعظم مودی کے تاثرات کی قدر کرے اور اس کا مذاق نہ بنائے اوروہ اس حادثہ کو بنگال کے سال 2016کے پل سانحے پر مودی کے بےان سے موازنہ کر کے کوئی سوال بھی نہ کرے!۔
یہ بات درست ہے کہ اس وقت وزیر اعظم مودی نے بنگال میں اسمبلی الیکشن سے قبل پیش آئے برج انہدام سانحہ کو (ایکٹ آف فراڈ) قرار دےتے ہوئے بنگال کی ممتا حکومت پر طنز کسا تھا،جبکہ اس میں مرنے والے بھی انسان ہی تھے !۔لیکن آج فرق اتنا ہے کہ مودی گجرات میں مرنے والو ں کے تئیں اظہار مذمت اور تعزیت کررہے ہیں ،اپوزیشن انکے اس بےان کا حوالہ دے کر اب گجرات سانحہ پر بی جے پی حکومت کی لیگ پولنگ کرنے میں لگا ہے ۔لیکن آ ج فرق اتنا ہے کہ بی جے پی کی مرکزی اور رےاستی دونو حکومتیںگجرات سانحہ پر آنسو بہا کر یہ دکھانے کی کوشش کررہی ہیں کہ و ہ اس سے بے حد غم زدہ ہیں ۔
دوسری طرف موت کاپل بنانے والی کمپنی کے لوگوں کی دھر پکڑ کر نے کا اعلان کر کے یہ جتانے کی کوشش کی گئی کہ حکومت ابھی سوئی نہیں ہے ، وہ جاگ رہی ہے اور قصور وار ہوگا وہ بخشا نہیں جائےگا!۔
بظاہر ان اعلانات سے تویہی اندازہ ہو رہا ہے کہ رےاستی حکومت” مستعد “ہے کہ اس نے چوبیس گھنٹے کے اندر قصور وارلوگوں کی گرفتاری کر لی ہے،اور جلد ہی اس حادثہ کے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچا دےا جائےگا ، لیکن اس میں دورائے نہیں کہ اس حادثہ سے جن سوالات جنم لےا ہے ،وہ دبائے نہیں جا سکتے اور ان سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی۔سوال یہ کہ اس پل پر گنجائش سے زےادہ لوگوں کے جانے کی اجازت کس نے دی ، وہاں کیسے سینکڑوں کی تعداد میں لوگ پہنچے ۔اس پل پر لوگوں کو جانے سے کیوں نہیں روکا گےا اور ان کا ٹکٹ جاری کرنے میں عجلت کیوں دکھائی گئی ؟ انتظامیہ اور حکومت کے کسی فرد اور عہدیدار کو اس سانحہ کا ذمہ دار ٹھہرانے سے کیوں بچا جارہا ہے ،اس پر رےاستی حکومت جواب دہ ہے جس سے وہ بھاگ نہیں سکتی۔اس سانحہ نے لوگوں کی زندےوگےاں اجاڑ دی ہیں کہ ایک ہی کنبہ کے سات اور بارہ لوگ ایک ساتھ ختم ہوگئے ہوگئے ۔سوچئے اس میں بچنے والوں کا کیا عالم ہوگا؟ان کی زندگےاں بکھر گئی ہیں اور عہدے دار گھڑےالی آنسو بہا رہے ہیں!
افسوس کی بات ہے کہ کہ ہمارے ملک میں لالچ ، بد عنوانی ےا پھر لاپروائی حادثوں کی بڑی وجہ بنتے ہیں ۔تعجب ہے کہ ہم پچھلے حادثہ بھلا دیتے ہیں اور ان سے سبق نہیں لینا چاہتے۔اس حادثہ نے دوسال پہلے امرتسر میں پیش آئے راون دہن کے موقع پرٹرین سے کچلے جانے والے حادثہ کی ےاد تازہ کر دی ہے، جس میں دو سو سے زائد لوگ موت کی آغوش میں سما گئے تھے ۔حکوت گجرات سینکڑوں لوگوں کی موت پر ماتم کرنے کے ساتھ اگر اپنی لاپروائیوں بد عنوانی والے طریقہ پر بھی ماتم کرلے تو شاےد آئندہ بہت سے لوگ اس طرح کے حادثات سے محفوظ ہوجائیں۔بہر حال ،ناقدین کاکہنا ہے کہ حادثہ کے شکار سبھی افراد کےلئے مودی کی جانب سے اظہار رنج و غم کے ساتھ اظہار ندامت بھی کیا جانا چاہئے ، جس کا انتظار رہے گا!۔