نئی دہلی،آج مولانا ابوالکلام آزاد، بھارت رتن اور آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم کا 65واں یوم وصال تھا اور اس بات کو دیکھ کر بڑی دِل آزاری ہوئی کہ سوائے آئی سی سی آر کے ڈپٹی ڈائریکٹر راجیو کمار، مولانا آزاد اردو یونیورسٹی، حیدرآباد کے سابق چانسلر فیروز بخت احمد، تاریخ داں ایس عرفان حبیب، مولانا علیم اسدی،حسن آرا سلیم، سماجی کارکن عمران،عدنان صائم بھٹ، ایمن رضوی، مسٹر راو اور چند افراد کے کوئی نہ تھا۔ فیروز بخت احمد نے افسوس ظاہر کرتے ہوے کہا کہ پچھلے تقریباً ۵۳برس سے وہ دیکھ رہے ہیں کہ نہ تو مرکزی اور نہ دلّی سرکار سے کوئی انہیں خراج عقیدت پیش کرنے آتا ہے، نہ ہی لوکل ممبر پارلیمنٹ، ایم ایل اے اور حتٰی تو یہ کہ کارپوریشن تک کا کوئی ممبر وہاں پھٹکتا تک نہیں ہے، جو نہات ہی افسوس کا مقام ہے۔ بخت نے مزید کہا کہ جہاں تک ہندو مسلم یگانگی کا تعلق ہے آذاد کا نام ہمیشہ زرّیں الفاظ میں تحریر کیا جائےگا۔بقول بخت، "مولانا ابوالکلام آزاد کے خوانوں کا ہندوستان ہندو مسلم یگانگی سے ہی بنےگا۔”اس موقعے پر آئی سی سی آر کے ڈپٹی ڈائریکٹر راجیو کمار نے آزاد مزار پر پہنچے لوگوں سے کہا کہ آزاد مزار کے حالات ٹھیک نھیں ہیں اور ان میں بہتری کے لئے وہاں فواروں کو چلایا جانا چاہئے، ایک دوکان آذاد کی کتابوں کی فروخت کے لئے ہو، آذاد کی کہیں گئی باتوں کے بورڈز ھونے چاہئیں اور مقامی آبادی کے زریعے یہاں گاہِ بگاہے انکی تعلیمات پرنشستیں ھونی چاہیئے ھیں۔تاریخ داں ایس عرفان حبیب، جن کی مایہ ناز کتاب، ‘”مولانا آزاد، اے لائف” کا اجراءحال ہی میں دلّی کے انڈیا انٹرنیشنل سینٹر میں ہوا تھا، کہنے لگے کہ اب آذاد کو اس طریقے سے یاد نہیں کیا جاتا، جو انکا مقدر تھا کیونکہ ایک عرصہ سے ان پر کوئی کتاب شائع نہیں ہوئی ہے اور یہ کہ وہ الف پبلیشرز کے بے تحاشہ شکر گزار ہیں کہ اس خلا کو انہوں نے پر کیا۔ مولانا علیم الدین اسدی نے کہا کہ مولانا ابوالکلام آزاد کی بے تحاشاقربانیاں رہی ہیں۔آگر وہ چاہتے تو ہندوستان کے پہلے وزیرِ اعظم بھی بن سکتے تھے کیونکہ 1947میں وہی کانگریس کے صدر تھے اور پنڈت نہروکے لئے انہوں نے قربانی دی۔ حبیب آختر صاحب نے کہاکہ بطورِ وزیر تعلیم، آج بھی ملک و قوم انہیں مس کر رہے ہیں کیونکہ اب انکی قابلیت کے وزیر تعلیم دیکھنے میں نہیں آتے! بقول جناب حبیب، آج ہندوستان کے سپوتوں نے جو ہندوستان و مغربی دنیا میں سائنس، تجارت کھیل کود و دیگر محکمات میں تہلکہ مچا رکھا ہے، اسکی وجہ مولانا صاحب کا تعلیمی بلو پرنٹ ہے، جسکی رمق ہمیں نیو ایجوکیشن پالیسی میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ خاتون سماجی کارکن، ایمن رضوی نے کہا کہ آج جتنی ضرورت مولانا ابوالکلام آزاد کی ہے، شاید اس سے قبل نہ تھی۔انہوں نےکہا کہ ماڈرن تعلیم کا جو اکس مولانا آزاد نے ہمیں دیا تھا، آج اسکا ایک حصہ نئی تعلیمی پالیسی نے بھی اپنایا ہے، مگر ضرورتِ اس بات کی ہے کہ مولانا کو صرف انکی برسی یہ یوم ولادت پر ہی یاد کیا جائے بلکہ انکی پیغام کو روز اپنانے کی ضرورت ہے۔عمران، جامع مسجد کے اطراف کے سماجی کارکن نے کہا کہ مولانا آذاد کے تعلّق سے اسکول کی کورس کی کتابوں میں ہندو مسلم یگانگی کی کہانیاں اور مضامین ہونے چاہئیں تاکہ بچّے بچپن سے ہی ایک دوسرے کے ساتھ باہمی ہم آہنگی کے ساتھ رہنا سیکھ لیں اور صحیح معنوں میں ہمارے پیارے وزیرِ اعظم کے سپنوں کا ہندوستان بنائیں۔