اس وقت ملک میں دیش اور دستور کو بچانے کی سرتوڑ کوشش ہورہی ہے۔ بھارت کو جوڑنے اور انصاف کے لئے کانگریس اور راہل گاندھی جان کی بازی لگار ہے ہیں۔ اپوزیشن پارٹیاں بھی کم و بیش اسی کام میں مصروف عمل ہیں۔ دوسری طرف شرپسند اور تاریک پسند طاقت اس کے بالکل برخلاف ہر حربہ اور ہر ہتھیار استعمال کر رہی ہے۔ پہلی طاقت تعمیر پسند ہے اور دوسری طاقت تخریب پسند اور شرپسند ہے۔ شرپسندوں اور تخریب پسندوں کی کوئی حد نہیں ہوتی وہ اخلاق و دیانت داری کی ساری حدیں توڑ دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے مقابلہ کرنا کوئی آسان نہیں ہوتا۔
جنگِ آزادی کے علمبرداروں نے ایک اچھا دستور ملک کو دیا ہے۔ دستور شہریوں کا امن اور چین سے رہنے کے لئے ایک معاہدہ ہوتا ہے۔ شرپسند طاقت کی کوشش ہے کہ دستور ان کی شرپسندی اور تخریب پسندی کا ساتھ نہیں دے رہا ہے، اس لئے ان کی کوشش ہے کہ جنرل الیکشن میں چار سو سے زیادہ سیٹوں پر جیسے تیسے کامیاب ہوجائیں تاکہ ان کی حکومت تیسری بار قائم ہوجائے اور وہ دستور بدل سکیں۔ خدانخواستہ اگر وہ اپنے ناپاک مقصد میں کامیاب ہوجاتے ہیںتو ملک میں بدامنی، بے چینی اور خانہ جنگی جیسی صورت حال پیدا ہوسکتی ہے۔ صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ ہر شہری امن و سکون سے محروم ہوسکتا ہے۔ ظالموں اور شرپسندوں کا خاص نشانہ تو مسلمان ہیں۔ مسلمانوں سے تو ان کی ذاتی دشمنی ہے، مگر یہ عداوت و دشمنی کے بغیر وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اپنے سیاسی ایجنڈے کو بروئے کار نہیں لاسکتے، اس لئے وہ 1925ء سے اس کام میں لگے ہوئے ہیں اور 2014ء میں ایک حد تک وہ اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہوگئے۔
ملک کا دستور کچھ ایسا ہے کہ الیکشن کمیشن کا محکمہ آزاد ہونا چاہئے۔ اس کے لئے سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کے انتخاب کے لئے جس طرح کی کمیٹی کی ہدایت کی تھی اس برعکس قانون پاس کرکے حکومت نے من پسند کمیٹی قائم کی اور اپنی مرضی کے مطابق الیکشن کمشنروں کو منتخب کیا۔جس کانفرنس میں الیکشن کمشنر راجیو کمار نے الیکشن کی تاریخوں کا اعلان کیا اسی کانفرنس میں ایک خاتون صحافی نے کمشنر سے سوال کیا کہ وزیر اعظم نریندر مودی یا وزیر داخلہ امیت شاہ انتخاب کے دوران اصول شکنی کرتے ہیں تو الیکشن کمشنر خاموش رہتا ہے، ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتا۔ اس کے برعکس اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈران چوں بھی کرتے ہیں توان کے خلاف فوراً کارروائی کرتے ہیں۔ جواب میں الیکشن کمشنر نے کہاکہ سب کے خلاف کارروائی کی جائے گی چاہے کوئی کتنا ہی بڑا لیڈر یا انتخابی کمپینر ہو۔ کہنے کو تو راجیو کمار نے تو کہہ دیا لیکن ابھی دو تین پہلے وزیر اعظم نریندر مودی نے بنارس میں مذہبی بھڑکاؤ تقریر کی۔ اس تقریر کے خلاف الیکشن کمشنر کی توجہ بھی دلائی گئی لیکن الیکشن کمشنر کے کان میں جوں تک نہیں رینگی۔ انتخاب کے اعلان کے بعد انتخابی ضابطے لاگو ہوجاتے ہیں۔ مودی جی نے ضابطہ شکنی کرتے ہوئے ایک خط بھی جاری کیا۔ اس پر بھی الیکشن کمشنر کے منہ پر تالا لگا رہا۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ الیکشن کمشنر غیر جانبدار نہیں ہے۔ وہ جانب داری سے کام لے رہا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی تقریر کچھ اس طرح کی تھی کہ اگر غیر جانبدار کمشنر ہوتا تو ان کی امیدواریت کو ختم کرسکتا تھا اور وہ الیکشن نہیں لڑسکتے تھے، لیکن مودی اور شاہ کے لئے ایسا لگتا ہے کہ سات خون معاف ہے۔
ایسی حالت میں ملک کے شہریوں کو اور خاص طور پر مسلمانوں کو انتہائی سمجھداری سے کام لینا ہوگا، کیونکہ مودی اور ان کے قبیلے کے لوگ بھڑکاؤ تقریریں کریں گے، کچھ ایسے حالات بھی پیدا کرنے کی کوشش کریں گے کہ جس سے لوگ بھڑکیں، مشتعل ہوں، ہندو اور مسلمانوں میں لڑائی جھگڑا ہو۔ فساد برپا ہوجائے اور اس کے ذریعے پولرائزیشن ہوجائے اور آسانی سے وہ الیکشن میں اپنے مقصد کے مطابق کامیاب ہوجائیں۔ 2019ء میں ’این ڈی اے‘ کو جب شکست فاش کا احساس پیدا ہوگیا تو پلوامہ جیسا واقعہ رونما ہوا۔ مودی جی نے شہیدوں کے نام پر ووٹ مانگا اور آسانی سے لوگ متاثر ہوگئے اور مودی جی کی منہ مانگی مراد پوری ہوگئی۔ ابھی تک مودی جی جو کچھ کر رہے ہیں وہ یہ کہ اپوزیشن پارٹیوں کی حکومتوں کو توڑ رہے ہیں۔ ای ڈی، سی بی آئی، انکم ٹیکس جیسی سرکاری ایجنسی بناکر ایم ایل اے، ایم پی کو ڈرا دھمکا کر کسی نہ کسی طرح اپنے خیمے میں شامل کر رہے ہیں۔ شیواجی پارک میں راہل گاندھی نے تقریر کرتے ہوئے کہاکہ ’’اسی ریاست کے ایک کانگریسی لیڈر میری ماں کے پاس گئے اور روتے ہوئے کہا کہ ’’میڈم میں دباؤ سے پریشان ہوں۔ میں جیل نہیں جاسکتا ، اس لئے میں کانگریس چھوڑ رہا ہوں۔ ایسے ہزاروں لوگوں نے ڈر کر اپنی اپنی پارٹی چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہوئے‘‘۔ راہل گاندھی نے اسی میٹنگ میں مزید کہاکہ ’’کسی نے سچ کہا ہے مودی کی جان ای وی ایم میں ہے۔ صرف ای وی ایم میں ہی نہیں ہے بلکہ تمام سرکاری ایجنسیوں میں ہے جو مودی کے لئے ایک ہتھیار ہے جس سے وہ لوگوں کو زیر کرنا چاہ رہے ہیں‘‘۔ راہل گاندھی نے اس میٹنگ میں ایک اصطلاح جو ہندو مذہب میں شکتی کے طور پر استعمال کی جاتی ہے، اس کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’’ایک شکتی سے نبرد آزما ہیں۔ مودی اس شکتی کے مکھوٹا ہیں۔ کسی فرد اور کسی پارٹی سے ان کی جنگ نہیں ہے‘‘۔
مودی جی نے شرپسند شکتی کو جس کے خلاف راہل لڑنے کی بات کر رہے تھے اسے ناری شکتی اور ہندو شکتی میں بدل دیا اور خواتین کے اجتماع کو خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ’’ہم اس شکتی کی پوجا کرتے ہیں۔ ہم آپ کے لئے جان کی بازی لگادیں گے‘‘۔ مودی کے اس بیان کے بعد سیکڑوں لوگوں نے ٹوئٹ کے ذریعے عورتوں کے ساتھ جو ملک بھر میں مظالم، ہراسمنٹ، جنسی زیادتیاں ہورہی ہیں ان سب کا حوالہ دیااور مودی سے سوال پر سوال کیا ، اس وقت آپ کی جان کہاں گئی ہوئی تھی۔ پہلوان خواتین کے ساتھ جب دہلی پولس ان کی جائز مانگ پر گھسیٹ گھسیٹ کر جنتر منتر میں مار رہی تھی تو آپ کہاں تھے؟ منی پور کی عورتوں کو ننگا کرکے گھمایا جارہا تھا تو آپ کے منہ پر تالا لگا ہوا تھا۔ بی جے پی کے ایم ایل اے، ایم پی اور دیگر لیڈران نے ملک کے مختلف علاقوں میں عورتوں کے ساتھ ہر طرح کی ظلم و زیادتی کی تو مودی جی آپ کے منہ پر پٹی لگی ہوئی تھی۔ اس طرح کی بہت سی باتیں ’یوٹیوبر‘ کے ذریعے مشتہر ہوئیں، لیکن ان باتوں سے حیا رکھنے والے بھی متاثر ہوسکتے ہیں۔ بے حیا افراد کو حیا چھو بھی نہیں سکتی، وہ بے حیا ہوکر سب کچھ کرنا جائز سمجھتے ہیں۔ اسی لئے کہا گیا ہے کہ ’’بے حیا باش ہرچہ خواہی کن‘‘۔
یہ ہیں وہ حالات جس میں نہایت سمجھداری اور سنجیدگی سے کام لینا ہے تاکہ کوئی سانحہ، کوئی واقعہ شرپسند اور تخریب پسند رونما نہ کرسکیں۔ ان کی طرف سے ہر کوشش اور سازش آخری وقت تک رچی جائے گی ، ان سب کا جواب بہت سمجھداری اور سنجیدگی سے دینا ہوگا۔ ان کے جال اور چال میں آنے سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرنی ہوگی۔ جب ہی ان کی چالوں اور سازشوں کو مات دی جاسکتی ہے۔