سیرت النبی کی روشنی میں تعمیر وطن کنونشن‘ غالب اکیڈمی بستی حضرت نظام الدین میں ایم ایس او نے شروع کیا ذہن ساز تعمیری مذاکرہ
نئی دہلی ، 19 نومبر،پریس ریلیز، ہمارا سماج: ہمارا وطن عزیز بھارت ، ہمارا مادر وطن ہی نہیں بلکہ پدری وطن بھی ہے کیوں کہ حضرت آدم علیہ السلام جب دنیا میں تشریف لائے تو سب سے پہلے ہندوستان میں اتارے گئے، اس لئے بھارت ہمارا پدری وطن بھی ہے، اسی لئے ہمارے اسلاف نے ہندوستان کو وطن عزیز مانا ہے اور اپنے پیارے وطن کی تعمیر و ترقی میں قایدانہ کردار پیش کیا ہے بلکہ حکومت و غلامی ، ہر دور میں وطن عزیز کی تعمیر و ترقی میں پیش پیش رہے ہیں اور ہم بھی اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے وطن عزیز کی خیر خواہی کی تاریخ رقم کر رہے ہیں کیونکہ ہم نے یہ سب دنیا کے رہبر اعظم پیغمبر اسلام نبی رحمت علیہ الصلوٰة و السلام کی سیرت و کردار سے سیکھا ہے۔غالب اکیڈمی بستی حضرت نظام الدین میں مسلم اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آف انڈیا(ایم ایس او) کی جانب سے منعقد”تعمیر وطن کنونشن“ میں صدارتی خطاب کرتے ہوئے واسع ملت پدم شری پروفیسر اختر الواسع صاحب نے یہ تاریخی حوالے پیش کیے اور کہا کہ علامہ اقبال نے بالکل سچ فرمایا ہے کہ “
میرعرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
میرا وطن وہی ہے ، میرا وطن وہی ہے
انہوں نے کہا کہ یہ وطن عزیز ہندوستان صوفیہ کی سر زمین ہے تو پھر اپنے صوفیہ کی سر زمین سے ہماری وفاداری نہیں ہوگی تو کس سے ہوگی؟ قرآن پاک نے تعمیر وطن کا کتنا اچھا سبق دیا ہے کہ جب ہم اپنے کسی پیارے کو وطن عزیز کی مٹی میں دفن کرتے ہیں تو کہتے پین کہ اسی مٹی سے پیدا ہوئے، اسی مٹی میں لوٹائے جائیں گے پھر اسی مٹی سے دوبارہ اٹھائے جائیں گے، اسی لئے علامہ اقبال نے کہا تھا کہ :
پتھر کی مورتوں میں سمجھا ہے تو خدا ہے
خاکہ وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے
امیر اجلاس مفتی اشفاق حسین قادری چیئرمین تنظیم علمائے اسلام دہلی نے کہا کہ "تعمیر وطن کنونشن” کا مقصد صرف یہی ہے کہ ہم سب وطن عزیز کی تعمیر، سیرت نبوی کی روشنی میں کرتے رہیں، اس لئے کہ رسول کریم ہی ہمارے لئے رول ماڈل ہیں ، وطن سے محبت ایک فطری جذبہ ہے، اگر کوئی اختلاف ہوگا تو ہم مل کر اس کو طے کریں گے۔یہ رہنمائی رسول رحمت نے ہمیں میثاق مدینہ میں فرما دی ہے۔قاید اجلاس ڈاکٹر شجاعت علی قادری نے کہا کہ ہم نہ حاکم ہیں نہ ہم محکوم ہیں بلکہ ہم اقتدار میں برابر کے شریک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ساری دنیا کو کوئی منشور جوڑ سکتا ہے، ایک کرسکتا ہے تو رسول رحمت نبی آخر الزماں علیہ الصلوٰة و السلام کا خطبہ حجتہ الوداع ہے۔ پروفیسر اخترالواسع نے تاکیدی مشورہ دیا کہ ایم ایس او کا گرلس ونگ بھی ہونا چاہیے، اس لئے کہ رسول گرامی نے جو حقوق ہمیں دیے ہیں وہی حقوق آپ اپنے گھر کی خواتین کو دیجیے۔ خواتین کے حقوق کی جو بھی بات ہوتی ہے وہ سب رسول اکرم کی مبارک زندگی میں موجود ہے۔ رسول رحمت کی اہلیہ خدیجہ نے بعثت کے بعد بھی کاروبار تجارت کو جاری رکھا۔ ایک تہائی شریعت ہمیں حضرت عائشہ سے ملی ہے۔ ام سلمہ نے سیاسی میدان میں نمائندگی کی ہے۔ حضرت زینب نے امام حسین کی شہادت کے بعد قیادت کی۔ اس لئے آپ اپنی تنظیم میں خواتین کو بھی جگہ دیجیے۔ یاد رکھئے کہ جو قوم کربلا کے بعد باقی رہ سکتی ہے اور جو 1947 کے بعد زندہ رہی وہ آئندہ بھی زندہ رہے گی۔مولانا محمد ظفر الدین برکاتی مصباحی نے ہدیہ تشکر کے تحت قرآن و سنت و سیرت نبوی میں”تعمیر وطن کے عملی تصور“کو پیش کرتے ہوئے کہا کہ اگر ملک بنانا ہے تو پیغمر اسلام کی سیرت پر عمل کیے بغیر ہم ایک اچھا ملک نہیں بنا سکتے۔ کیوں کہ جہاں اخلاق اور انصاف نہیں ہوگا وہاں نظام نہیں چل سکتا۔ جہاں ظلم ہوتا ہے اور شہریوں کے کسی ایک طبقہ کے ساتھ سوتیلا سلوک ہوتا ہے وہاں تعمیر وطن کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔کنونشن کی نظامت ڈاکٹر حفیظ الرحمان مصباحی نے کی اور کہا کہ تین دہائی قبل ایم ایس او شروع ہوا تھا جس سے میں دوران طالب علمی سے ہی جڑا ہوا ہوں۔ اس کا مقصد سیرت رسول کی روشنی میں حب الوطنی کا جذبہ پیدا کرنا ہے۔ایم ایس او سے جڑے ہوئے افراد کو میں نے دیکھا ہے۔ سب کو اخلاقی اعتبار سے بہت ہی منفرد پایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایم ایس او کی سرپرستی پروفیسر اخترالواسع صاحب بھی کر رہے ہیں جو خوش آئند بات ہے۔ محمد مدثر اشرفی ، قومی صدر، ایم ایس او نے کہا کہ تنظیم کے قیام کا اصل مقصد اہل سنت والجماعت کو فروغ دینا ہے جو سیرت نبوی کا راست ہدف ہے۔ یہ تنظیم نہ صرف اسلامی تعلیمات و عقائد کا تحفظ کرتی ہے بلکہ طلباءو طالبات کی رہنمائی کرتی ہے۔ مذاکراتی اجلاس میں مولانا منظر محسن نعیمی ، محمد ارمان صابری ، مولانا عثمان قادری ، مفتی عبدالمصطفیٰ برکاتی اور مولانا اسرار الحق نعیمی وغیرہ دہلی کے بہت سے عوام و خواص نے شرکت کی۔