آج مرکزی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے پارلیمنٹ میں سال 2023-24کا اقتصادی بجٹ پیش کردےا۔مرکزی بجٹ تقریر کے دوران مرکزی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے بدھ کو انکم ٹیکس سلیب میں تبدیلی کا اعلان کیا۔اس بجٹ میں عام لوگو ں کو خاص رعایت دیتے ہوئے دعویٰ کیا گےا کہ لوگوں کو اس بجٹ سے کافی راحت ملے گی اور ان کی جیب پر پڑا بوجھ ہلکا ہو جائے گا ۔بجٹ میں دعویٰ کیا گےا کہ اب سات لاکھ روپے کی کمائی پر کوئی ٹیکس نہیں دینا ہوگا ،جبکہ یہ شرط پہلے پانچ لاکھ روپے تک کی آمدنی پر تھی اس کا مطلب جو لوگ پانچ لاکھ روپے سالانہ کماتے ہیں وہ اس سے زےادہ کمانے پر ٹیکس ادا کرتے ہیں ۔لہٰذا حکومت کا کہنا ہے کہ اب نئے نظام میں ٹیکس کی شرط سات لاکھ کردی گئی ہے۔ ان کی آمدنی جیسے ہی 7 لاکھ روپے سے ایک روپے بھی بڑھ جاتی ہے تو انھیں ٹیکس دینا ہوگا اور وہ ٹیکس کی رقم صرف ایک روپے پر نہیں بلکہ 3 لاکھ سے اوپر کی پوری آمدنی پرادا کرنا ہوگی۔ یعنی جن کی آمدنی 7 لاکھ روپے سے زیادہ ہے، انھیں نئے انکم ٹیکس نظام کے تحت اب 3 لاکھ روپے تک کی آمدنی (پہلے سلیب) پر کوئی ٹیکس نہیں دینا ہوگا۔ لیکن آمدنی 7 لاکھ روپے سے اوپر جانے پر 3 سے 6 لاکھ والے دوسرے سلیب میں 5 فیصد ٹیکس دینا ہوگا۔ اسی طرح 6 سے 9 لاکھ روپے تک کے تیسرے سلیب پر 10 فیصد، 9 سے 12 لاکھ روپے تک کے چوتھے سلیب پر 15 فیصد، 12 سے 15 لاکھ روپے کے پانچویں سلیب پر 20 فیصد، اور 15 لاکھ روپے سے زیادہ کی آمدنی پر 30 فیصد انکم ٹیکس دینا ہوگا۔اس سے صاف ظاہر ہے کہ نئے انکم ٹیکس نظام کے تحت 7 لاکھ روپے تک کی چھوٹ دی گئی ہے۔قابل ذکر ہے کہ اب تک نئے ٹیکس نظام میں 2.5 لاکھ روپے تک کی آمدنی پر کوئی ٹیکس نہیں دینا ہوتا ہے۔ 2.50 لاکھ سے 5 لاکھ روپے تک کی آمدنی پر 5 فیصد ٹیکس لگتا ہے جس میں 87اے کے تحت ریبیٹ کا انتظام ہے۔الغرض ،نیابجٹ ماہرین اور ناقدین کے درمیان نئی بحث اور گفتگو کا موضوع بنا ہوا ہے ۔ ایک طرف حکومت اپنی پیٹھ تھپتھپا رہی ہے تودوسری جانب اپوزیشن اس پر یہ سوال اٹھا رہا ہے کہ اس سے کس کا بھلا ہوا اور کیا فائدہ ہوا اس کے مطابق حکومت کے دعوے کھوکھلے ہیں ۔سابق مرکزی وزیرمالیات پی چدمبرم کا کہناہے کہ اس سے دولت ایک فیصد لوگوں کے پاس جمع ہو رہی ہے ۔مرکزی حکومت کے ذریعہ پیش کئے گئے اس بجٹ سے جہاں اپوزیشن اسے خوابوں کا سوداگر بتا رہا ہے تو کچھ لوگ اسے محض لفاظی سے تعبیر کررہے ہیں اور اپوزیشن اس سے سخت ناخوش ہے ۔
در اصل حکومت مختلف شعبوں میں عوام کو راحت دینے کا دعویٰ کررہی ہے جہاں ا سکا کہنا ہے کہ مڈل کلاس کواس سے سب سے زےادہ راحت ملے گی۔ پیش کردہ بجٹ میں طب وصحت کے شعبوں میںبھی لوگوں کا خاص خیال رکھنے کا دعویٰ کیاگےا ہے ۔کہا جارہا ہے کہ خون کی کمی کے مرض کو جڑ سے ختم کر دےا جائیگااور 2047تک کئی بیمارےوں سے نجات مل جائے گی ۔نرملا سیتا رمن نے کہا کہ طبی سہولیات اور قبائلی لوگوں کی ترقی پر خصوصی توجہ دی جائے گی، ملک میں 157 نرسنگ کالج قائم کئے جائیں گے۔اس کے ساتھ ذراعت کے شعبوںمیں کئی بڑے لبھاؤنے اعلانات کئے گئے ہیں۔ جن میں سب سے اہم یہ کہ حکومت کسانوں کو کریڈٹ کارڈ سے قرض کی فراہمی کو ممکن بنائے گی اور بیس لاکھ تک قرض دےا جاسکے گا۔
بہر کیف ،بظاہر تو حکومت کا بجٹ کافی لبھاؤناو دلفریب نظر آتا ہے کہ لوگوں کو ٹیکس سے راحت ملے گی،لہذامتوسط طبقہ امید کررہاہے کہ غریبوں ،کسانوں اور متوسط طبقہ کےلئے جو مراعات کا اعلان کیا گےا ہے اس میںپچھڑے سماج اورکسانوں کےلئے بھر پور کام ہونے چاہئیں ، اس پر عمل بھی ہونا چاہئے ،سوال متوسط طبقہ کا ہی نہیں ہے ۔ملک میں حکومت کے اسپتالوں کا طبی نظام بے حد خستہ حالی کا شکار ہے اور بدعنوانی کا بول بالا ہے جن سے عام اور کمزور لوگوںاور غریبوں کا روز واسطہ پیش آتاہے۔دوسری جانب اس بجٹ کوسیاسی چشمہ سے بھی دیکھا جارہا ہے۔ آئندہ سال لوک سبھا کے الیکشن نزدیک ہیں مودی حکومت کی کوشش ہے کہ عوام کی ناراضگی سے محفوظ رہا جائے ۔کیونکہ پچھلے کچھ سالوں سے اپوزیشن ملک کے اقتصادی حالات پر حکومت کو گھیرے ہوئے ہے نوجوان کا بڑا طبقہ بے روزگاری کا شکار ہے، مہنگائی بڑھی ہوئی ہے اور لوگوں کی نوکرےاں داؤ پر لگی ہوئی ہیں ان سب کے درمیان دنےا بھر میں رواں سال مندی کا سال ہونے کی پیشنگوئی کی جاچکی ہے ۔ایسے میں اگر حکومت کے دعوؤں کے مطابق بجٹ لوگوں کی امیدوں پر کھرا اترتا ہے اور اس سے کمزوروں اور متوسط طبقہ کو فیض پہنچے گا تو یہ کافی بڑی بات ہوگی۔ ریلوے کی جہاں تک بات ہے ،اس میں بھی دیکھنا ہوگا کہ مسافروں کی سہولےات کے نام پر کیا کچھ ہے ۔دیگر اعلانات کے ساتھ کیا ہی اچھا ہوتا کہ حکومت بزرگوں ،بچوںاور صحافتی برادری کیلئے ختم کی گئی سفر کرائے کی رعات کو فوری بحال کرنے کا بھی اعلان کرتی جو کورونا دورمیں بند کردی گئی تھی۔












