سہیل انجم
علی بھائی (ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی) سے پہلی ملاقات کب ہوئی اور کیسے ہوئی یہ تو یاد نہیں لیکن میں نے پندرہ بیس سال کے تعلق کے عرصے میں ان کو ہمیشہ یکساں پایا۔ وہی شرافت، وہی شائستگی، وہی خندہ پیشانی، وہی خوش اخلاقی، وہی انکساری، وہی حسن سلوک اور وہی محبت اور وہی دوستانہ انداز۔ ان تمام اوصاف میں بیشی تو پائی لیکن کبھی کمی نہیں پائی۔ ان سے ملاقات ان کے دولت خانہ پر بھی ہوئی، آل انڈیا ریڈیو میں بھی ہوئی اور دوسرے مقامات پر بھی ہوئی۔ ہمیشہ تپاک سے ملنا اور کھل کر گفتگو کرنا ان کی فطرت اور طبیعت کا خاصہ ہے۔ وہ جس قدر قابل اور با صلاحیت ہیں اسی قدر منکسر المزاج بھی ہیں۔ لیکن ان کی ظاہری شخصیت بڑی ہی غیر متاثر کن ہے۔ اگر وہ پہلی بار کسی سے ملیں تو وہ ان سے کوئی اثر قبول نہیں کرے گا۔ لیکن ملاقات کا عرصہ جوں جوں بڑھتا جائے گا ان کے مزاج کی خصوصیات ابھرتی جائیں گی۔ اور پھر وہی شخص جس نے پہلی ملاقات میں ان کو نظرانداز کر دیا تھا ان کا احترام کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔
علی بھائی جیسے باہر ہیں ویسے ہی اندر بھی ہیں۔ نہ کوئی چھل نہ کپٹ، نہ تعصب نہ تنگ نظری، نہ معاندانہ جذبات نہ احساس برتری۔ فارسی، اردو اور انگریزی زبانوں پر عبور رکھنے والا یہ شخص اتنا سادہ لوح ہے کہ اس پر بلا کا پیار آتا ہے۔ علی بھائی کی سادہ لوحی اور ان کی شرافت سے بہت سے لوگوں نے ناجائز فائدے بھی اٹھائے ہیں۔ انھیں لوگوں سے دھوکے بھی ملے ہیں۔ بے وفائیاں بھی ملی ہیں۔ لیکن اگر ان سے ایسے لوگوں کے بارے میں پوچھا جائے تو شاید ہی وہ کسی ایسے شخص کا نام بتا سکیں۔ اس کی وجہ وہی ان کی شرافت نفسی ہے جو انھیں دوسروں سے ممتاز بناتی ہے۔ وہ کسی بھی بات کا برا بھی نہیں مانتے۔ اکثر و بیشتر ایسا ہوتا ہے کہ ان کی سادہ لوحی پر ہم میں سے کسی نے سخت الفاظ میں کچھ کہہ دیا لیکن انھوں نے اس کا غلط مطلب نہیں نکالا۔ نہ ہی اسے دل میں رکھا۔ نہ تعلقات کی راہ میں آڑے آنے دیا۔
میں نے اکثر دیکھا ہے کہ آل انڈیا ریڈیو کی اردو سروس کے ایک افسر اعلیٰ ان کا مذاق اڑاتے اور انھیں ”استاذ الاساتذہ“ کہہ کر چھیڑنے کی کوشش کرتے۔ لیکن انھوں نے کبھی نہ تو ان کے انداز گفتگو پر اعتراض کیا اور نہ ہی ان کے دل میں کبھی یہ خیال آیا کہ انھیں ان سے قطع تعلق کر لینا چاہیے یا کم از کم ان سے ملنا جلنا چھوڑ دینا چاہیے یا کم کر دینا چاہیے۔ میں جب بھی آل انڈیا ریڈیو کی اردو سروس میں جاتا اور انھیں معلوم ہو جاتا تو یہ جانتے ہوئے بھی کہ افسر مذکور سے آمنا سامنا ہو سکتا ہے، وہ مجھ سے ملنے ضرور آتے۔ اتفاق سے عموماً ”ان“ سے مڈبھیڑ ہو جاتی اور وہ اپنے روایتی انداز میں چھیڑنے کی کوشش کرتے۔ لیکن علی بھائی ہمیشہ خندہ پیشانی کے ساتھ اور سر جھکا کر ان کی باتیں سنتے۔ وہ یہ نہیں کہتے کہ آپ میرے ساتھ ایسا سلوک کیوں کرتے ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ اس کے بعد عموماً ہم دونوں ایک ساتھ باہر نکلے لیکن انھوں نے ایک بار بھی دبے لفظو ںمیں ہی سہی ان کی شکایت نہیں کی۔ دوسری طرف افسر مذکور کا رویہ یہ ہوتا کہ جب ان کی غیر موجودگی میں ان کے بارے میں گفتگو ہوتی تو وہ ان کی بے حد تعریف کرتے اور کہتے کہ اگر علی بھائی زود گوئی ترک کر دیں اور سنجیدگی کے ساتھ شاعری کریں تو بہت اچھے شاعر ہوسکتے ہیں۔ انھوں نے ان کے پیٹھ پیچھے کبھی بھی ان کا مذاق نہیں اڑایا بلکہ عزت کے ساتھ ان کا ذکر کیا۔ میں کبھی کبھار سوچتا ہوں کہ ایسا کیوں ہے؟ تو دل و دماغ سے جواب آتا ہے کہ برقی اعظمی کی صلاحیت و قابلیت اور اس کے ساتھ ہی ان کی شرافت کے قائل وہ بھی ہیں اور انھیں اس کا احساس بھی ہے کہ آل انڈیا ریڈیو کی اردو اور فارسی سروس میں ایسا قابل ترین شخص کوئی دوسرا نہیں ہے۔ لیکن ان کی عادتوں اور ان کی سادہ لوح طبیعت کے پیش نظر وہ ان کو چھیڑنے پر مجبور ہو جاتے۔ صرف وہی کیوں، میں ایسے کئی لوگوں سے واقف ہوں جو ان کے سامنے تو انھیں باتوں میں اڑانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن غائبانہ میں ان کی تعریفوں کے پل باندھتے ہیں۔ اور یہ بات درست بھی ہے کہ آل انڈیا ریڈیو کے اردو اور فارسی شعبے میں ان سے قابل کوئی دوسرا شخص نہیں ہے۔ (اب تو علی بھائی اپنی ملازمت سے سبکدوش ہو چکے ہیں)۔
ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی سے تعلق اور ان کی شاعری کے پیش نظر اگر کوئی ان کی شخصیت کا مطالعہ کرنا چاہے تو پھر ان کی شخصیت کی پرتیں بیک وقت کھلنے کے بجائے رفتہ رفتہ کھلیں گی۔ یہ نہیں کہ ”اک ذرا چھیڑیے پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے“۔ لیکن جوں جو ںان کی شخصیت کی پرتیں کھلتی جائیں گی، ایسا محسوس ہونے لگے گا کہ ہم ان کی شاعری کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ اسی طرح ان کی شاعری کے بالاستیعاب مطالعہ کے ساتھ ساتھ یہ احساس قوی ہوتا جائے گا کہ ہم برقی اعظمی کی شاعری کا نہیں بلکہ ان کی طبیعت اور ان کی شخصیت کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ گویا ان کی شاعری اور شخصیت دونوں ایک دوسرے کے لازم و ملزوم ہیں۔ ان کو ان کی شاعری سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا اور ان کی شاعری کو ان کے مزاج سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ حالانکہ عام طور پر شعراء یا فنکار اپنی شاعری اور فنکاری سے الگ نظر آتے ہیں۔ یعنی ان میں تضاد ہوتا ہے۔ لیکن ان میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ نہ داخلی نہ خارجی۔ دونوں حالتیں ایک دوسرے میں مدغم ہیں۔ ان کو الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔علی بھائی کی شاعری میں ان کی ذات تو پوری طرح موجود ہے ہی ان کی ذات کا کرب بھی دکھائی دیتا ہے۔ وہ کرب جو بیرونی اور اندرونی دنیا سے عبارت ہے۔ انھیں باہر سے جو کچھ ملا ہے اور اندر سے بھی جو کچھ ملا ہے وہ سب ان کے کلام میں نمایاں ہے۔ لیکن اشارو ںکنایوں میں۔ نہ تو کہیں بھونڈا پن ہے اور نہ ہی حالات کا پرشور شکوہ۔ ساری باتیں بہت ہی سلیقے کے ساتھ موجود ہیں۔ لیکن عام قاری کو وہ نظر نہیں آئیں گی۔ البتہ جو ان سے ذاتی طور پر واقف ہے وہ ضرور کچھ نہ کچھ سمجھ جائے گا۔ سچ بات یہ ہے کہ زمانہ نے ان کی قدر نہیں کی۔ زمانہ کو چھوڑیے، اپنوں سے بھی انھیں وہ محبت، اپنائیت اور عزت و وقار حاصل نہیں ہوا جس کے وہ مستحق ہیں۔ لیکن برقی اعظمی ”نہ گلہ ہے دوستوں کا نہ شکایت زمانہ“ میں یقین رکھتے ہیں۔ اسی لیے بہت سی بیرونی و اندرونی ناہمواریوں کے باوجود ان کی زندگی میں بظاہر کوئی کجی نظر نہیں آتی۔ اپنے بے تکلف دوستوں سے گفتگو میں وہ بہت سی باتیں ضرور بتاتے ہیں لیکن لطف لے لے کر۔ اپنی ناقدری کو بھی وہ لطف لے کر بتاتے ہیں۔ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ انھوں نے کوئی ایسا واقعہ بیان کیا ہو جس سے ان کو تکلیف پہنچی ہو اور انھوں نے اس پر دکھ یا ملال کا اظہار کیا ہو۔ وہ ان واقعات سے بس ایسے گز رجاتے ہیں جیسے گلشن میں چہل قدمی کرتے وقت کچھ کانٹے آجائیں اور ان سے دامن کشاں گزر جایا جائے۔میں علی بھائی کی شاعری پر کچھ زیادہ اظہار خیال نہیں کروں گا۔ کیونکہ ایک درجن سے زائد لوگوں نے ان کی شاعری پر مضامین قلمبند کیے ہیں اور اب ان کی شاعری کا کوئی ایسا گوشہ بچا نہیں ہے جس پر کچھ لکھا نہ گیا ہو۔ ہاں یہ بات ضرور کہنا چاہوں گا کہ اگر وہ اپنی زود گوئی پر ذرا سا انکش لگائیں اور اپنے بعض ہلکے اشعار کو قلمزد کرنے کی جرات اپنے اندر پیدا کریں تو بہت اچھے شاعر بن سکتے ہیں۔ کبھی کبھی تو حیرت ہوتی ہے کہ اِدھر گفتگو ہوئی اور ادھر پوری غزل یا نظم ردیف و قافیہ کے قالب میں ڈھل کر سامنے آگئی۔ لیکن اس میں ان کا کوئی قصور نہیں ہے۔ ان کی طبیعت ایسی موزوں ہے کہ وہ خواہی نہ خواہی غزلیں کہتے رہتے ہیں۔ برقی اعظمی کے مزاج اور ان کی طبیعت میں جو شعریت اور موزونیت ہے وہ ان کے والد اور استاد شاعر جناب رحمت علی برق اعظمی کی تربیت کا نتیجہ ہے۔ برق اعظمی اپنے دور کے ایک قادر الکلام شاعر تھے۔ علی بھائی نے ان کی کلیات شائع کروائی اور دہلی میں اس کا اجرا عمل میں آیا۔ ان کو اپنے والد کے بے شمار اشعار یاد ہیں۔ وہ اپنے والد کی روایتوں کے امین بھی ہیں اور پاسدار بھی۔ وہ انھیں آگے بھی بڑھا رہے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو شاید غلط نہیں ہوگا کہ وہ برق اعظمی کی شاعری اور ان کی روایت کے سچے نمائندہ ہیں۔ اور کیوں نہ ہوں کہ اگر پسر پدر کی روایتوں کو آگے نہ بڑھائے تو اسے اپنے باپ سے کیا نسبت ہو سکتی ہے۔
انٹرنیٹ کے انقلاب نے ان کے اندر بھی انقلابی تبدیلی پیدا کر دی ہے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ کیسے انھوں نے اتنے کم عرصے میں کمپیوٹر سیکھ لیا اور انٹرنیٹ کے بحر ذخار میں غوطہ بھی لگا لیا۔ آج ہندوستان اور پاکستان اور پوری اردو دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا شاعر ہو جو انٹرنیٹ میں اس قدر غرق ہو۔ کسی کانفرنس یا مشاعرے میں ہیں۔ ابھی پروگرام چل ہی رہا ہے کہ انھوں نے وہیں بیٹھے بیٹھے اس کی رپورٹ بنائی اور کئی ویب سائٹوں کو پوسٹ کر دی۔ پروگرام ختم ہونے کے بعد لوگوں کو پتہ چلتا ہے کہ ان کی باتیں یا ان کی آواز پوری اردو دنیا میں پہنچ گئی ہے۔ وہ فیس بک کے بھی شہنشاہ ہیں۔ دن بھر میں جانے کتنی بار فیس بک پر اپنا پیج اپ ڈیٹ کرتے ہیں یا غزل اور شعر پوسٹ کرتے رہتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کوئی تصویر پوسٹ کریں گے تو اس کا کیپشن بھی منظوم ہی ہوگا۔ بالخصوص ان تصویروں کا جو ان کو عزیز ہوں۔ علی بھائی بے شمار خوبیوں کے مالک ہیں۔ میں اپنی بات ان کے ہی ایک شعر پر ختم کرتا ہوں:
شعورِ معرفت مضمر ہے برقی خود شناسی میں
”خودی کا رازداں ہو جا خدا کا ترجماں ہو جا“