ایک مہذب زندگی گزارنے کے لیے ہر مرد و عورت کے لیے علم ضروری ہے، لیکن افسوس کہ انسانوں نے طبقاتی طور پراسے تقسیم کردیا۔ اشرافیہ اور اعلیٰ طبقات نے اسے صرف اپنا حق سمجھ کرنچلے اورپچھڑے لوگوں کو اس سے محروم رکھااور اسی طرح مردوں نے علم کو اپنا اجارہ سمجھ لیا اور عورتوں کا علم حاصل کرنا سماج میںفتنے کو جنم دیناتصور کیا جانے لگا۔ جب کہ ایک صحت مند اور منظم معاشرہ کے لیے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یکساں طور پر مردو عورت اور ہر طبقے کے افراد کو تعلیم حاصل کرنے کے مواقع ملتے۔ ایسے بے راہ رو ماحول میںجن عورتوں نے علم کو ہر طبقے اور خاص کر عورتوں تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ان میں فاطمہ شیخ کا اور ساوتری بائی پھلے کا نام کافی اہمیت کا حامل ہے۔ آج بھارت میں پچھڑا طبقہ اور لڑکیاں جس قدر تعلیم حاصل کررہی ہیں اور ہر میدان میں اپنے ہنر سے دنیا کی آنکھیں خیرہ کررہی ہیں وہ ان ہی بہادر خواتین کی محنت کا ثمرہ ہے۔بھارتیہ بچھڑا طبقہ اور لڑکیوں پر فاطمہ اور پھلے کا بڑااحسان ہے جن کے احسان کے وہ ہمیشہ قرض دارہیں گے اور ان بہادر خواتین کو رہتی دنیا کبھی بھلانہیں سکتی اور اگر ہم نے بھلایا تو یہ ہماری بدنصیبی ہوگی۔
فاطمہ شیخ کی پیدائش پونے کے گجن پیٹ علاقے میں ۹ جنوری ۱۳۸۱ کو ہوئی۔فاطمہ شیخ ہندوستان کی پہلی مسلم ٹرینڈ شدہ معلمہ میں شمار ہوتی ہیں۔ انھوں نے اپنی انتھک کوششوں سے جہاں جہالت اور ظلمت کدہ اورتوہم پرستی کا سیاہ بادل چھایاہوا تھا وہاں علم کی روشنی بکھیر دی۔ مخالفین کی مخالفت کوبالائے طاق رکھ کرایک تعلیم یافتہ سماج کی بنیاد رکھی، لیکن فاطمہ شیخ کے کام کو سراہنے کے بجائے مقامی لوگوں نے ان کی مخالفت کی اور انھیں اور ان کے گھروالوں کو نشانہ بنانا شروع کردیا۔ فاطمہ شیخ جو خود ایسے میدان میں اتر چکی تھی جہاں ان کا قبیلہ اور خود ان کاخاندان ساتھ چھوڑ چکا تھا ایسے وقت میں بھی جب ساوتری بائی کو مددکی ضرورت پڑی تو فاطمہ شیخ نے ان کا ہر ممکن ساتھ دیا اور اس طرح ساوتری بائی اپنا مہم جاری رکھنے میں کامیاب ہوئی۔تذکروں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جیوتی راؤ پھلے اور ساوتری بائی پھلے کو جب تعلیم نسواں کی تحریک چلانے کی پاداش میںآبائی وطن سے نکال دیا تو انھوں نے فاطمہ شیخ کے یہاں پناہ لی ۔ ۸۴۸۱ءکو عزم و استقلال ،اپنے ارادے اور دھن کی پکی ناریوں نے عثمان شیخ بھائی فاطمہ شیخ کے گھر میں ہی ایک پرائیوٹ اسکول کھول دیاجسے لڑکیوں کے آزاد اولین اسکول میں سے ایک ہونے کا صرف حاصل ہے اور پھر یہ کارواں اس طرح آگے بڑھتاچلا گیااور ہندوستانی سماج کے پچھڑے طبقات کی مسیحائی کا بیڑا اٹھالیا، پھر کیا تھا ایک طرح سے طبقائی تقسیم کے خلاف ذہنی جنگ چھڑگئی۔ وہ افراد جو کل تک اپنے مسائل کو لے کر گونگے تھے ان کو زبان مل گئی۔ پس ماندہ کے ساتھ مسلم خواتین کو بھی اپنے حقوق اور سماجی مسائل پر غور و فکر کرنے اور اس کے حل کرنے کا ذہن پیداہوا۔ اس طرح حقوق نسواں پر سنجیدگی سے غور کیا جانے لگا۔فاطمہ شیخ نے سماجی مساوات قائم کرنے اور اونچے طبقوں کی دوغلی پالیسی اور دوہرا رویہ کے خلاف زبردست مہم چھیڑ دی اور گھر گھر جاکر اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی دعوت دی اور غیر مساوات نظام سے سختی سے بچنے کی بھی ہدایت کی۔ یہ کام کرنا اتنا آسان نہ تھاماحول لڑکیوں کی تعلیم کے تئیں اس قدر نازک اور خلاف تھا کہ اس کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جب فاطمہ شیخ اور ساوتری بائی نے جیوتی راؤ پھلے کے اسکول میں جانا شروع کیا تو ہر طرف چہ می گوئیاں شروع ہوگئیں یہاں تک کہ بعض اوقات راہ چلتے ان پر گوبر پھینک دیا جاتا، جس کی وجہ سے انھیں کئی بار اسکول جاکر کپڑے بدلنے پڑتے۔ جہاں عورتوں کو صرف گھروں کے انتظام و انصرام کا آلہ سمجھا جاتا ہووہاں آزادی¿ نسواں پر کام کرنا دو دھاری تلوار پر چلنے کی مانند تھا، لیکن فاطمہ ہر چیلنجز کا سامنا کرتی ہوئی تحریک آزادی نسواں کو سینچتی چلی گئی، اوراس طرح کامیابی ان کا قدم چومتی رہی۔
فاطمہ شیخ نے ۱۵۸۱ءمیں ممبئی میں دواسکولوں کی بنیاد بھی رکھی تھی۔ انھیں پھلے جوڑی کی جانب سے چلائے جانے والے پانچ اسکول میں تدریسی خدمات انجام دینے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔اس کے علاوہ بچوں کو تعلیم دینے کے لیے گھرپر بلاتی اور خود بھی ان کے گھر جاکر تعلیم دیتی۔ اسی طرح بیوہ عورتوں کا نکاح جیسی مہم اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے کوششیں کرنا ان کی زندگی کا نصب العین بن گیا۔ ایسے ملک میں جہاں ایک طبقہ کی عورتوں کو ان کے مردوں کے ساتھ زندہ جلا دیا جاتا ہو وہاں دوسرے طبقہ کے یہاں بھی بیوہ عورت کا کیا مقام ہوگا اس پر لب کشائی کی چنداں ضرور ت نہیں ،اگر پھر بھی آپ کو اس کا اندازہ کرنا ہو تو عصر حاضر میں ہی دیکھ لیجیے کہ دنیا اتنی ترقی کرنے کے باجود ہمارے معاشرے میں بیواؤں کی حالت کیسی ہے۔ فاطمہ شیخ نے ان کے حقوق ، تعلیم وتربیت اور سماج میں مقام دلانے میںہر ممکن کوشش کی اور فرسودہ روایات کو سماج سے مٹانے کے لیے غیر معمولی کردار ادا کیا۔فاطمہ شیخ کوہم انیسویں صدی کی ایک انقلابی خاتون کے طور پر دیکھ سکتے ہیں جس میں اپنے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے ہر طوفان سے لڑجانے کی ہمت اور طاقت ہے اور جس کے یہاں قسمت کے ہر داؤ پیچ کو اپنی تدبیر سے شکست دے کر اپنی منزل مقصود تک پہنچ جانے کا جنون ہے۔ گویا ہار کا لفظ ان کی زندگی کی ڈکشنری میں تھا ہی نہیں۔ ہم ان کی اس غیر معمولی کوشش اور جدو جہد کو نظر انداز نہیں کرسکتے اور خاص کر تو ہندوستان کی لڑکیوں اور بچھڑے طبقوں کو انھیں ہمیشہ اپنے دلوں میں زندہ رکھنا چاہیے اور ان سے سبق حاصل کرکے جو سماج میں کمیاں رہ گئی ہیں اس کو ختم کرنے کی کوشش کرینی چاہیے۔ایسی شخصیت قابل تقلید ہوتی ہے اسے فراموش کرنا خود اپنی طاقت کو کمزور کرنا ہے۔
عدم مساوات کے خلاف جو روشن خیال فاطمہ شیخ نے کارنامہ انجام دیا ہے اسے سنہرے حروف لکھا جاناچاہیے۔ خود پریشانیوں اور مخالفین کی یلغار کو برداشت کرکے دوسروں کی رہنمائی کی اور غریب اور مظلوم کو نشاط آفرین لمحات میسر کرائی۔ انہی لازوال کارناموں کی وجہ سے گوگل نے اپنی ویب سائٹ پر ۹جنوری ۲۲۰۲ کوان کی۱۹۱ویں سال گرہ کے موقع پر ڈوڈل بناکر اعزاز سے نوازا تھا۔ فاطمہ شیخ کی اس ۲۹۱ویں سال گرہ کے موقع سے ہم بھارتیہ عوام سے امید کرتے ہیں کہ جیوتی راؤ پھولے اور ساوتری بائی پھولے کے ساتھ جو تحریک چلی تھی اسے مزید قوت بخشیں گے۔
مطالعے سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ اگر فاطمہ شیخ اور ان کے بھائی کا پھولے جوڑی کو ساتھ نہ ملتا تو وہ شاید اپنے ارادے میں کامیاب نہ ہوپاتے اور ان کا خواب کبھی پورا نہ ہوتا لیکن افسوس کہ فاطمہ شیخ کوجس قدر عوامی اور سرکاری سطح پر یاد کیا جانا چاہیے وہ نہیں ہوا۔ پھولے جوڑوں کو تو خوب سرکاری ، غیر سرکاری اور سیاسی طور پر یاد کیا جاتا ہے لیکن فاطمہ شیخ کو حاشیے میں ڈال دیا گیا۔فلم انڈسٹری سے ہم اپیل کرتے ہیں کہ اس بہادر بیٹی پر ایک شاندار فلم بنا کر انھیں خراج عقیدت پیش کرے۔ہر سال فاطمہ شیخ کی سال گرہ پر مرکزی اور صوبائی حکومت کی طرف سے ان کے نام پرکچھ ایسی ایکٹی ویٹی کاانعقاد کیا جانا چاہیے جس سے عوام وخواص اور نئی نسل انھیں یاد کرے اور ان کا مشن اور وژن زندہ رکھے ۔
حال میں ہی ریاست آندھرا پردیش نے آٹھویں جماعت کے نصاب میں انھیں شامل کیا ہے ، جس پر ہم حکومت آندھرا پردیش کومبارک باد پیش کرتے ہیں۔