اگر آپ پیچھے مڑ کر دیکھیں تو آپ کو لگے گا کہ بی جے پی میڈیا کا ہر ٹاک شو ایک نئی صبح کے ساتھ طلوع ہوتے ہی ،’’ تاریخی اور ریکارڈ الفاظ ‘‘کے ساتھ شروع ہوتا ہے اور اس طرح پچھلے تمام بی جے پی برسوں کے تمام کارنامے اور ایونٹ تاریخی اور ریکارڈ ہیں، یہ روز مرہ زندگی سے۔ جیسے لیڈراں کرام کے کھانے پینے سے لے کر پتنگ بازی تک ہی کے بیانات کیوں نہ ہوں لیکن اینکرس اور ٹاک شو کرنے والے لوگ انہیں پہلے ہی زینے ’’پر تاریخی اور ریکارڈ‘ جتلاکر عوام کے اذہان میں ان کی اور ان سے منسلک افراد کی شکل و صورت کی صورت گری ایسے کرتے ہیں کہ لوگ اور ہم جیسے عام فہم نہ کچھ سمجھتے ہیں اور نہ اپنے کسی تاریخی ورثے کو تاریخی اور ریکارڈ سمجھتے ہیں ،بلکہ ہر روز نئے سینکڑوں ریکارڈ ہمارے سامنے سے گذرتے ہیں جو صرف بی جے پی سے ہی منسوب ہوتے ہیں ، بابری مسجد کا انہدام اور پھر اس پر رام مندر کی تعمیر ، یقینی طور پر ا،ن بے شما ہسٹرایکل ایونٹوں میں سر فہرست موجود ہیں اور رہیں گے اور ادھورے رام مندر کی پران پرتشٹھابھی ایک بہت بڑا تاریخی اور ریکارڈ ایونٹ ہے ، ہندو دھرم کے مہنت ،پوجاری، بی جے پی کے ہندوتا کے ساتھ دھرم کو ہم آہنگ قرار نہ بھی دیں تب بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ حکمران پارٹی ہے ، اور مذہب اور دھرم بھی حاکمیت کی گاڑی کے پیچھے ہی لگا رہتا ہے آگے نہیں ، بہر حال اب کی بار چار سو پار کا نعرہ یوں ہی نہیں دیا گیا رام مندر کے اُد گھاٹن کے بعد ہی اس خیال نے بنیادیں فراہم کیں کہ اب سارا بھارت ہندو ورش بی جے پی کے بس میں ہوچکا ہے تو ، چار سو پار کیوں نہیں ، لیکن شاید کہیں سے اس نعرے کو زمینی سطح پر عملی طور مندروں سے باہر لانے پر سوچ بچار نے یہ بھی واضح کیا کہ شاید انڈیا الائنس کی مظبوطی اور ان کا نریٹو چل ہی جائے اور’ حکمرانی‘ کو اپنی جان کے لالے ہی پڑیں ، سو کچھ اور بھی کر گذرنے کی ضرورت تھی جو فوری طور پر ایک اور مدعے کو فلوٹ کیا گیا جس سے بی جے پی تھنک ٹینک کو بڑے فائدے کی توقعات ہیں ،، اب دیکھئے کہ باقی سبھی دنوں کی طرح گیارہ مارچ چوبیس کو بھی باجپائی میڈیا نے تاریخی اور ریکارڈ دن قرار دیتے ہوئے تمام اپنے پیڈ چنلوں اور میڈیا پر اتنے نقارے بجائے کہ شور و غل کے سوا بہت کچھ سنائی ہی نہیں دیا اور سمجھ ہی نہ پائے کہ اب کیا ہوا ہے ؟۔کیونکہ اس دن ترمیمی قانون ۲۰۱۹ کو پورے ملک میں نافذ کیا سوائے چند شمال مشرقی ریاستوں کے جن کا ذکر آگے آئے گا ، مرکزی حکومت نے ایک فیصلے کے مطابق شہریت ترمیمی قانون ۲۰۱۹ کو پورے ملک میں نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے ، اور مرکزی وزارت داخلہ نے اپنیء توئیٹر پر ایک پوسٹ میں اس سلسلے میں یہ اطلاع دی ہے کہ ’’وزارت داخلہ آج شہریت ترمیم ایکٹ ۲۰۱۹ (سی اے اے )۲۰۱۹ کے تحت قواعد و ضوابط نو ٹیفائی کرے گی اور یہ کہ یہ قواعد جس سے شہریت ترمیمی رولز ۲۰۲۴ کہا جائے گا ،، سی اے اے ،، ۲۰۱۹ کے تحت اہل افراد کو ہندوستانی شہریت دینے کے لئے در خواست دینے کے قابل بنائے گا اور اس ایکٹ کے تحت تین ممالک بنگلہ دیش ، پاکستان اور افغانستان سے آنے والے سکھ ، ہندو ، جین ، پارسی ، عیسائی ، بدھ چھ مذاہب کے پیرو ی کرنے والے ایسے تارکین وطن کو غیر قانونی تصور نہیں کیا جائے گا جو درست دستاویزات کے ساتھ نہ آئے ہوں ‘‘ یہ سب ہندوستانی شہریت کے قابل تصور کئے جائیں گے ، چھ مذاہب کے بجائے مناسب لفظ شاید یہ بھی ہوسکتا تھا کہ تمام ’’غیر مسلم تارکین وطن ‘‘سمجھے جائیں گے ،،، آپ کو یاد ہوگا کہ کہ یہ بل ۲۰۱۹ میں پارلیمنٹ میں پاس ہوا تھا لیکن ملک میں شدید ردِ عمل اور احتجاجوں کی وجہ سے لاگو نہیں ہوسکا اور یہ بھی آپ کو یاد ہوگا کہ ان احتجاجوں میں ۱۰۰ سے زیادہ افراد اپنی جانیں گنوا بیٹھے تھے ، بنگال کی ممتا بنر جی شروعات سے ہی اس ایکٹ کی زبردست مخالف رہی ہیں وہ سمجھتی ہیں کہ اس کا مقصد بنگال کی آبادی کو تقسیم کے عمل سے گذارنا ہے اور دوئم یہ کہ یہ ایک انتخابی نعرہ ہے جس کی مدد سے ہندو رائے عامہ کو اپنے حق میں کرنے کی واضح بُو آتی ہے ، شاید ان کے خیالات میں حقائق کا عنصر موجود ہے کیونکہ یہی وجہ ہے کہ اس ایکٹ کو الیکشن سے پہلے ہی پھر ایک بار جلدی میں لاگو کرنے کے انتظامات کئے گئے ہیں ، ،کانگریس نے اپنے فوری ردِ عمل میں کہا ہے کہ شہریت ترمیمی قوانین ، قواعد و ضوابط نوٹیفائی کرنے کا مقصد آنے والے الیکشن کو مذہبی رنگ دینے کی ایک کوشش ہے ، یہ بات وہ سب پارٹیاں کہتی اور سمجھتی ہیں جو اس بل کے خلاف ہیں اور نہیں چاہتے تھے کہ یہ ترمیمی ایکٹ لاگو ہوجائے لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ جمہوری انداز حکمرانی میں ایسے لوگ بندوں کا آئین اور قانون بنانے کے مجاز ہوتے ہیں اور بناتے ہیں جنہیں انسانی فطرت اور انسانی اقدار اور بہتر سماجی معاملات اور ماحول کا ذرہ سا بھی ادراک نہیں ہوتا ، لیکن آپ ایسے لوگوں کو اس طرز حکمرانی میں خود اپنی گردنیں کاٹنے کے لئے تلواریں تھماتے ہیں ، ،، کانگریس کے جنرل سیکریٹری جے رام رمیش نے مزید یہ کہا ہے کہ الیکٹورل بانڈس مسلہ پر سپریم کورٹ کی ڈانٹ کے بعد سر خیوں کو اپنے پکش میں کرنے کے لئے بھی یہ ایک ہتھیار کے طور استعمال ہوگا ،،یا اس سبکی کو ختم کرنے میں بی جے پی کا معاون بنے گا ۔ آسام میں c aa کے خلاف فوری ردِ عمل کے نتیجے میں زبر دست احتجاجات کی ایک نئی لہر جاگ اٹھی ہے اور اس احتجاج میں کانگریس کے کارکنوں نے بھی بڑے پیمانے پر شرکت کی ہے ، اس ہنگامے کے دوران ایکٹ سے متعلق دستاویزات بھی نذر آتش کئے گئے بلکہ مودی اور امیت شاہ کے پتلے جائے جانے کی بھی اطلاعات ہیں ، اس شدید احتجاج میں مختلف مقامی پارٹیوں کے علاوہ کالج طلبا بھی پیش پیش رہے ، ۔۔ قانون کے مطابق یہ ترمیمی ایکٹ تمام شمال مشرقی ریاستوں کے بیشتر قبائلی علاقوں میں نافذ نہیں ہوگا ، اور اس میں وہ علاقے بھی شامل ہیں جنہیں آئین کے چھٹے شیڈول کے تحت خصو صی درجہ دیا گیا ہے ،،، یہ اُن تمام علاقہ جات میں نافذ نہیں ہوگا ، جہاں ’’انٹر لائن پرمٹ ‘‘کی ضرورت ہوتی ہے ، جس کا مطلب یہ ہے کہ ملک کے دوسرے حصوں میں رہنے والوں کو سفر کرنے کے لئے آئی ، لائن پرمٹ کی ضرورت ہوتی ہے ہے ،،، ایسے علاقے ارونا چل پردیش ،، ناگا لینڈ ،، میزورم ،،اور منی پور میں ہیں ،،، آئین کے چھٹے شیڈول کے تحت خود مختار کونسلیں تشکیل دی گئی ہیں انہیں بھی سی اے اے کے دائرے سے باہر رکھا گیا ہے ،،، آسام۔ میگھالیہ۔اور تریپورہ میں ایسی خود مختار کونسلیں موجود ہیں ، آسام کی ۱۶ پارٹیوں ،متحدہ اپوزیشن فورم uolfa) )نے منگل کو ریاست گیر ہڑتال کا اعلان بھی کیا ہے ، اور اے اے ایس یو نے کہا ہے کہ وہ اس کے خلاف قانونی جنگ بھی جاری رکھے گی ، اس کے ساتھ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ اے اے ایس یو اور ۳۰ غیر سیاسی پارٹیوں نے بھی ایکٹ کو مسترد کرتے ہوئے اس کی کاپیاں جلائی ہیں ،،، جموں و کشمیر کے سابقہ وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا ہے کہ یہ ایکٹ سارے مسلمانوں کے لئے بی جے پی کا ماہ مبارک کی آمد پر ایک تحفہ ہے ،، اور اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ بار باراور ہمیشہ بی جے پی مسلمانوں کو اپنے نشانے پر رکھتی ہے پارٹی ہیڈ کوارٹر پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ یہ ایکٹ ۲۰۱۹ میں پاس ہوا تھا لیکن شدید احتجاج کی بِنا پر اس سے ا،لتوا میں رکھا گیا تھا اور ایسے کیا حالات بنے کی فوراً ہی اس سے لاگو کیا گیا ؟، ظاہر ہے کہ یہ سیاست کاری کے سوا کچھ نہیں ،، غور کیا جائے تو کئی پہلوؤں سے یہ سب زاویہ نگاہ کچھ نہ کچھ وزن اور دلیل رکھتے ہیں ، اور قرین قیاس یہی ہے کہ چار سو والے ہدف تک پہنچنے کے لئے صرف رام مندر اور دوسری مساجد کے انہدامی اہداف شاید اب عوام میں اتنے مقبول نہیں ،اس لئے شہریت ترمیمی ایکٹ کی سحر نگاری کا بھی سہارا لیا گیا ہے ، نہیں تو ابھی تک چار سال کے بعد اس ایکٹ کا اتنی جلدی یاد آنا اور اتنی جلدی نافذ ہونا اس سے مشکوک بھی بناتا ہے اور اس پر سوالات بھی کھڑے ہوجاتے ہیں ، جس طرح اور جس شدت کے ساتھ ۲۰۱۹ میں اس ایکٹ کے خلاف احتجاج ہوئے تھے اور اس کی مخالفت میں مظاہرے ہوئے تھے ۔ظاہر ہے کہ یہ صرف اس لئے نہیں ہوئے تھے کہ یہ ایکٹ بی جے پی پاس کرنا چاہتی تھی بلکہ حق یہی ہے کہ اس بل کے پسِ پردہ کئی ایسے معا ملات ہیں جنہیں کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور افسوس اس بات کا ہے وہ لوگ نیند ا ور نیم بے ہوشی کے عالم میں اپنے ہاتھ مشینی انداز میں کھڑ ے کرتے ہیں، جنہیںان ایکٹوں اور ان نئے قوانیں کا کوئی شعور اور ادراک نہیں ہوتا شاید اسی لئے ہر پارٹی کو محظ ہاتھ کھڑے کرنے والے بہرے ، گونگے اور اندھے افراد کی ضرورت رہتی ہے اور یہی جمہورت کا حُسن کہلاتا ہے ،،،،