نئی دہلی، پریس ریلیز،ہماراسماج:آج غالب اکیڈمی بستی حضرت نظام الدین نئی دہلی کے زیر اہتمام یک روزہ قومی سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔جس کی صدارت پروفیسر شاہینہ تبسم نے کی۔اس سیمینار کی نظامت عزہ معین نے کی۔اپنی صدارتی تقریر میں پروفیسر شاہینہ تبسم نے کہا کہ ریسرچ اسکالر س کو محنت سے نہیں گھبرانا چاہئے۔انہیں تحقیق اور تنقید کے بنیادی اصول اور تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے تحقیقی کام انجام دینے چاہئے۔اردو زبان میں ایسا جادو ہے جو سامنے والے کو سحر میں مبتلا کر دیتی ہے۔مگر اس کے لئے لازم ہے کہ تلفظ سہی ہو۔اسلئے طلبہ کو جہاں تک ممکن ہو اپنے تلفظ کو دررست کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ زبان و ادب کی صحیح نمائندگی کر سکیں۔مہمانِ خصوصی ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا نے کہا کہ آج کے دور میں وسائل کی کمی نہیں ہے۔جدید وسائل سے مواد تک رسائی ہو جاتی ہے۔اسکالرس کو اس سہولت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بنیادی مآخذ سے استفادہ کرنا چاہئے۔ آج یہ محسوس ہو رہا ہے کہ اساتذہ اور طلباء کے مابین دوری آ گئی ہے۔ہمیشہ مقالے کو پیش کرنے سے قبل اساتذہ کو ضرور دکھانا اور الفاظ کا صحیح استعمال کرنا چاہئے۔ ڈاکٹر شاداب تبسم نے اسکالرس کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ تحقیقی مقالہ لکھنے سے پہلے تحقیق اور تنقید کے مبادیات کو بہت اچھی طرح سمجھنا چاہئے تاکہ غلطیاں کم از کم ہوں۔جناب ثروت عثمانی نے کہا کہ مقالہ تحریر کرنا اور اسے پیش کرنا دونوں الگ چیزیں ہیں۔پیشکش پر الگ سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ڈاکٹر عبدالباری نے کہا کہ آج طلباء پڑھنے سے زیادہ شائع ہونا چاہتے ہیں انہیں رسائل و جرائداورکتابیں زیادہ سے زیادی پڑھنی چاہئے اور کسی بھی رسالے کو مضمون بھیجنے سے قبل اس کے معیار اور مزاج کو پرکھنا چاہئے۔ آج طلباء کی سہل پسندی کی وجہ سے سرقے کا سلسلہ زیادہ بڑھا ہے۔ رسرچ اسکالرس کی عمر سیکھنے کی ہوتی ہے اگر ابھی کچھ محنت کر لیں تو مستقبل کے بڑے قلم کار اور محقق وناقد بن سکتے ہیں۔ محترمہ نرگس سلطانہ نے اسکالرس کو ریسرچ سے متعلق مضامین کو شائع کروانے سے زیادہ خطوط اور تبصروں سے سیکھنے کی طرف متوجہ کیا۔اس سیمنار میں ناہیدہ شفیع (کشمیر)،شاہد خان(پیلی بھیت)،ثنا(پیلی بھیت)،شگفتہ خانم(بریلی)،شمع فاطمہ(شاہجہاں پور)،اعظم علی (رام پور)، نظام الحسن (رام پور) اور مصباح الدین (رام پور)نے اپنے مقالے پیش کئے۔آخر میں عزہ معین نے تمام شرکا،سامعین اور غالب اکیڈمی کا شکریہ ادا کیا۔