نئی دہلی، 28؍ دسمبر،پریس ریلیز،ہمارا سماج:گزشتہ روز غالب اکیڈمی ،نئی دہلی میں مرزا غالب کے یوم ولادت کے موقع پر ایک پروقار تقریب کا انعقاد کیا گیا۔اس موقع پر پروفیسر شہپر رسول نے غالب کے خطوط پر ایک پر مغز خطبہ دیا۔انہوں نے کہا کہ غالب کی شخصیت نابعۂ روزگار ہے۔شاعری ان کی شخصیت کو عظیم بناتی ہے۔ غالب نے اپنے خطوط میں سادہ اور بے تکلف زبان کا استعمال کیا ۔ انھوں نے مراسلے کو مکالمہ بنادیا اور خط وکتابت کو ملاقات کا بدل بنا دیا۔انہوں نے اردو خطوط کے طرز تخاطب کو تبدیل کردیا اور بڑے بڑے القاب و آداب کی جگہ بہت مختصر کردیا اور اردو نثر نگاری میں نئی روح پھونک دی۔ غالب کے خطوط میں غالب کے ساتھ ان کاتمام عہد سانس لیتا نظرآتا ہے۔فکر وفلسفہ ، شعر ونثر،تاریخ وتہذیب،ثقافت وسیاست، شاہ گدا ،عوام وخواص شاگرد واحباب اور ان کے متعلقات غرض زندگی اپنے غیرمعمولی تنوع کے ساتھ جلوہ گر نظر آتی ہے۔غالب کے خطوط کا جس قدر اور جتنی بار مطالعہ کیا جاتا ہے زندگی ا سی قدر نئی شکلوں میں ہمارے سامنے آجاتی ہے اور یہ کرشمہ یا واقعہ کسی دوسری جگہ نظر نہیں آتا۔اس موقع پر پروفیسر شریف حسین قاسمی نے کہا کہ غالب نے مشکل زندگی گزاری ہے غالب کے خطوط اور دستنبو میں دہلی کی تاریخ ،ہندوستان کی تاریخ کی تفصیل پیش کی گئی ہے۔ غالب کے بارے میں سب ایک نئی بات کرتے ہیں۔ڈاکٹر جی آر کنول نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا کہ غالب نے اپنے خطوط میں زندگی سے متعلق ساری باتیں لکھی ہیں۔ غالب نے ملکہ وکٹوریہ کا قصیدہ لکھا وہ پسند نہیں کیا گیا۔غالب نے بتایا کہ خط کیسے لکھا جاتا ہے۔ انہوں نے خط کے اسلوب کو بدل دیا۔غالب نے خط میںصرف اپنے بارے میں نہیں بلکہ اوروں کے بارے میں بھی بہت کچھ لکھا ہے۔اس موقع پر ڈاکٹر عقیل احمد نے کہا کہ غالب خوش قسمت ہیں کہ الطاف حسین حالی جیسا قدر دان ملا۔ حالی نے یاد گار غالب لکھ کر غالب فہمی کی بنیاد ڈالی۔ عبدالرحمن بجنوری نے دیوان غالب کو الہامی کتاب کہہ کر غالب کی شاعری کی طرف متوجہ کیا۔ غالب کے دیوان کے جب ترجمے ہوئے تو غالب کو عالمی سطح پر عظیم شاعر تسلیم کیا جانے لگا۔لیکچر کے بعد محفل کلام غالب کا انعقاد کیا گیا۔ اس محفل میں سمتا دتّا نے موسیقی کے ساتھ غالب کی غزلیں پیش کیں۔ محفل کلام غالب کی نظامت کشفی شمائل نے کی۔ کمال احمد،سلیم احمد،سلامت علی نے طبلے، ہارمونیم اور سارنگی پر ساتھ دیا۔ اس موقع پر اردو ڈپلومہ ،عربی سرٹیفیکٹ اور خطاطی کے طلبا کو اسناد تقسیم کی گئیں۔جلسے سے پہلے مزار غالب پر بڑی تعداد میں عاشقین غالب نے مزار پر پھول پیش کرکے عقیدت کا اظہار کیا۔اس موقع پر بڑی تعداد میں ادیب وشاعر اورعاشقین غالب موجود تھے جن میں انیس اعظمی،ظہیر برنی،متین امروہوی، سکندر عاقل،فضل بن اخلاق،سجاد رضوی،خالد علوی، نارنگ ساقی، رضوان لطیف، سلیم دہلوی،سرفراز فراز،شاداب تبسم، سہیل انجم،فرقان علی،پروین ویاس،رچنا نرمل، احترام صدیقی، مدھو میتا بوس، سنتوش سمپرتی، فوازیہ افضل، دامنی شرما، فرید احمد، اظہر زئی،نسیم بیگم نسیم،چشمہ فاروقی، نگار عظیم، سارہ مہدی،شاہدہ،نسا زیدی، ٹی این بھارتی، فرزانہ انجم، جے سی بترا، سیما کوشک اور بڑی تعداد میں طلبا موجود تھے۔