بڑاشاعر وہی ہے جو وقت کے ساتھ آگے بڑھتا رہتاہے اور اس کی شاعری کی معنوی تہیں وقت کے ساتھ کھلتی چلی جاتی ہیں۔ ایک غلط فہمی یہ ہے کہ ماڈرن تھیوریز مغربی ہیں جس سے مجھے شدید اختلاف ہے۔ آپ اگر غالب کی شاعری کو پڑھیں تو معلوم ہوگاکہ وہ ماڈرن تھیوریز کاپورا ساتھ دیتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ غالب کلاسیک ہونے کے باوجود سب سے ماڈرن شاعروں میں سے ایک ہے۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر اروند، وائس چانسلر پنجابی یونیورسٹی پٹیالہ نے غالب انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے شائع کردہ دیوان غالب پنجابی کی رسم رونمائی کے موقع پر کیا۔ یہ تقریب پنجابی یونیورسٹی پٹیالہ سینٹ ہال میں منعقد ہوئی۔ اس موقعے پر غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر ادریس احمد نے مہمانوں اور شرکاکا استقبال کرتے ہوئے کہاکہ ملازمت کے سلسلے میں میرا پنجاب میں قیام رہاہے اور میں کسی قدر پنجابی زبان سے واقف بھی ہوں۔ میری کوشش ہے کہ دیوان غالب ہندستان کی تمام علاقائی زبانوں میں شائع ہو۔ مجھے خوشی ہے کہ میرے چارج لینے کے بعدسب سے پہلے دیوان غالب پنجابی میں شائع ہوا۔ ہم پنجاب میں ہی اس کی رسم رونمائی چاہتے تھے اس کے لیے پنجابی یونیورسٹی پٹیالہ سب سے مناسب مقام ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ پروفیسراروند صاحب وائس چانسلر پنجابی یونیورسٹی پٹیالہ نے نہ صرف ہمیں اس کی جازت دی بلکہ خود بھی اس تقریب میں شرکت فرمائی۔اس موقعے پر میں ڈاکٹر نریش صاحب جنہوں نےاس دیوان کا پنجابی میں ترجمہ کیاہے کا شکریہ ادا کرنا اپنا فرض سمجھتاہوں۔ میں ڈاکٹر بلبیر سنگھ مادھوپوری اور ڈاکٹر بلجیت سنگھ شیخوں کا شکریہ ادا کرنابھی اپنا فرض سمجھتا ہوں۔پروفیسر محمد رفیع سابق سکریٹری پنجاب اردو اکادمی نے کہاکہ شاعری کاایک انداز یہ ہے کہ ”ایک پھول کامضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں“ غالب کے یہاں یہ وصف بڑے خوبصورت انداز میں ظاہر ہواہے۔غالب انسٹی ٹیوٹ مبارکباد کامستحق ہے کہ اس نے اس اہم ضرورت کو محسوس کیااور اس کو عملی جامہ پہنایا، پروفیسر گرمکھ سنگھ صدر شعبہ¿ پنجابی، پنجابی یونیورسٹی پٹیالہ نے کہا کہ میں نے جگجیت سنگھ اور دیگر لوگوں کی آوازمیں غالب کی غزلیں سنیں، پھر سیریل دیکھااور بعدمیں پروفیسر گوپی چند نارنگ کی کتاب پڑھی۔ پروفیسر نارنگ نے انہیں بالکل مختلف انداز میں سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ پروفیسر نارنگ نے ایک اہم بات یہ کہی کہ غالب کی شاعری پیراڈاکس کی بہترین مثال ہے۔ میرے لیے یہ بہت خوشی کی خبر ہے کہ دیوان غالب گرمکھی رسم الخط میں شائع ہوگیا ہے۔ شعبہ¿ ہندی کی صدر پروفیسر نینوکوشل نے کہا کہ میں ماہر غالبیات تونہیں لیکن اپنے شوق کی بنیاد پر ہندی کے وسیلے سے غالب کو پڑھا ہے۔ کسی علاقے کی تہذیب کو سمجھناہوتو وہاں بولی جانے والی زبان کو بغور پڑھنا چاہیے۔ غالب کی شاعری کو پڑھتے ہوئے آپ ہندستانی تہذیب اور اس میں باہر سے جوفکری اور لسانی عناصر شامل ہوئے ان کی بہتر تفہیم کر سکتے ہیں۔ اب میں غالب کو گرمکھی کے وسیلے سے بھی پڑھ سکتی ہوں اس کے لیے میں غالب انسٹی ٹیوٹ کو مبارک باد پیش کرنا چاہتی ہوں۔ پروفیسر راجندرسنگھ برار ڈین فیکلٹی آف لنگویجز نے تمام شرکا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ غالب نے کہاتھاکہ ”وہ آئے گھر ہمارے خداکی قدرت ہے“ اس موقعے پر مجھے یہ شعر مجھے بہت اچھا لگ رہاہے کیونکہ غالب گرمکھی کا لباس پہن کر ہمارے گھر آئے ہیں۔ پروفیسر رحمن اختر صدر شعبہ¿ فارسی، اردو ،عربی نے اس اجلاس کی نظامت فرمائی اورکہا کہ ’غالب اردو کےسب سے مقبول شاعر ہیں وہ ہمارے سلیبس کا حصہ بھی ہیں۔