نئی دہلی: 18دسمبر:()غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام سالانہ بین الاقوامی غالب سمینار بعنوان”ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے“ کاسلسلہ آج اختتام کو پہنچا۔ سمینار کے پہلے اجلاس کی صدارت جامعہ ملیہ اسلامیہ کے استاذ پروفیسر ندیم احمد نے کی۔ جب کہ نظامت کے فرائض رئیس احمد فراہی نے انجام دیے۔ سیشن میں قدآور ماہر اقبالیات پروفیسر عبد الحق ’غالب کا شعری احساس تفاعل‘، پروفیسر قمرالہدی فریدی’غالب کی داخلیت‘، اور پروفیسر ضیاء الرحمن صدیقی ’غالب کی تخلیقی توانائی‘،عنوانات کے تحت مقالات پیش کیے۔صدارتی گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر ندیم احمد نے کہاکہ غالب ایک دور اندیش شاعر تھا، جس کے سبب آج بھی عہد جدید کا شاعر معلوم ہوتا ہے۔ غالب کے اشعار جتنی بار پڑھے جائیں معنی کی نئی جہتیں سامنے آتی ہیں۔
دوسرے اجلاس کی صدارت پروفیسر شریف حسین قاسمی نے کی جب کہ ڈاکٹر علام الدین نظامت کر رہے تھے۔ اس اجلاس میں بطور مقالہ نگار پروفیسر کوثر مظہری، پروفیسر نجمہ رحمانی، پروفیسر اخلاق آہن، ڈاکٹر ضیاء اللہ انور اور فاطمہ سادات میر حبیبی(ایران) نے اپنے اپنے مقالات پیش کیے۔ پروفیسر شریف حسین قاسمی نے صدارتی گفتگو میں کہاکہ غالب نے لفظ تماشا مختلف مفاہیم میں استعمال کیے ہیں، یہ مفہوم میں اور آپ محسوس کرسکتے ہیں۔ لیکن ایرانی اس مفہوم کو بیان نہیں کرسکتے۔ پروفیسر قاسمی نے غالب کے مختلف اشعار پیش کرکے مثالیں بھی پیش کیں۔ انہوں نے مزید کہاکہ غالب کے یہاں جب ان کا اردو کلام پڑھتے ہیں تو بعض اشعار میں آخر میں صرف ہے ہوتا ہے، اس سے ہی پتہ چلتا ہے کہ یہ شعر اردو کا ہے ورنہ اس کے پورے مصرعے فارسی ہوتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ غالب پڑھتے فارسی تھے اور لکھتے اردو میں تھے۔ یہاں پیش کیے گیے تمام مقالات بہت اچھے تھے اور سبھی نے ان مقالات سے استفادہ کیا۔تیسرے اجلاس کی صدارت کے فرائض پروفیسر وہاج الدین علوی اور پروفیسر قاضی عبیدالرحمن ہاشمی نے انجام دیے۔ جب کہ نظامت ڈاکٹر خوشتر زریں ملک نے کی۔پروفیسر ہربنس مکھیا، پروفیسر انیس اشفاق، پروفیسر شافع قدوائی اور پروفیسر احمد محفوظ نے مقالے پیش کیے۔ پروفیسر وہاج الدین علوی نے صدارتی گفتگو میں کہاکہ پیش کیے گئے تمام مقالات بے حد عمدہ تھے اور کافی تیاریوں کے ساتھ لکھے گیے۔ غالب کو ہم سمجھتے ہیں فلسفیانہ گفتگو کرتے ہیں جب کہ ان کے یہاں زبان کے جو چٹخارے ملتے ہیں، اس کی مثال نہیں ملتی ہے۔ غالب کے تماشے جو ہیں وہ تاریخ سے لیکر تصوف تک ہیں۔طرح طرح کے تماشے وہ دکھاتا ہے۔غالب کی چکلس کی پرواز دیکھئے کہ وہ معرفت تک لے جاتا ہے۔آج کا یہ سمینار اور اب تک جتنے سمینار اور جتنے ہوں گے وہ غالب کے ہی تماشے پہ ہوں گے۔ کیا وہ تماشا دکھاتا ہے یا وہ کرتا ہے۔ غالب وہ شاعر ہے جو کبھی بھی تماشا بنتا نہیں ہے۔
اس اجلاس کے بعد اختتامیہ اجلاس کی صدارت پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے کی جب کہ پروفیسرعتیق اللہ،پروفیسر ہربنس مکھیا اور پروفیسر انیس اشفاق اور پروفیسر قاضی جمال حسین نے اظہار خیال کیا۔ اس اجلاس کی نظامت کی ذمہ داری ڈاکٹر ندیم احمد نے ادا کی۔غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ میں ڈائرکٹر ڈاکٹر ادریس احمد اور اپنے تمام ساتھیوں کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے محنت و مشقت اور سلیقے سے اپنی ذمہ داریاں ادا کیں۔ غالب انسٹی ٹیوٹ اس قسم کے سمینار منعقد کرتا رہتا ہے اور ہماری ٹیم کی یہ انتظامی صلاحیت ہے کہ وہ ایک روز میں تمام انتظامات بخوبی انجام دے سکتی ہے۔ پروگرام کے اختتام پر غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر ادریس احمد اظہار تشکر ادا کرتے ہوئے کہاکہ میں اور میری ٹیم نے بہت ہی خوشی کے ساتھ تمام انتظامات کیے۔آپ تمام حضرات سے میں التماس کرتا ہوں کہ آپ اپنے مفید مشوروں سے ہمیشہ نوازتے رہیں اور تجاویز بھی پیش کریں۔ میں آپ سبھی کی شرکت کا ممنون و مشکور ہوں۔
آخری پروگرام’ہم سب ڈرامہ گروپ‘، غالب انسٹی ٹیوٹ ’کے زیر اہتمام ’داستانِ غالب“ کا انعقاد عمل میں آیا۔ جسے تحریر کیا تھا پروفیسر دانش اقبال نے جب کہ پیش کش فوزیہ داستان گو اور فیروز خان (معروف داستان گو)، کی تھی۔