"میں ساری زندگی انگریزوں کی غلامی کرنے کے لیے تیار ہوں، مگر جو دلت، پچھڑوں اور مسلمانوں کو برابر کا حق دیتی ہو ایسی آزادی مجھے نہیں چاہیے” — گولوالکر 1940
یہ ذریں جملہ آر ایس ایس کے نظریہ ساز اور دوسرے سرسنگھ چالاک کا ہے جس کا اظہار موصوف نے 1940میں کیا تھا ۔اسے وقت کی ستم ظریفی کہیں یا کچھ اور کہ آج اسی نظریہ کے کوکھ سے پیدا ہونے والی سیاسی پارٹی کی مرکز سمیت زیادہ تر ریاستوں میں حکومت ہے اور مسلسل گیارہ برس سے سیکولر آئین اور سرکار کے مابین چپقلش جاری ہے ۔لیکن اب جو آثار نظر آ رہے ہیں اس میں سیکولرازم اور کمیونلزم کے مابین جنگ اب آخری مرحلہ میں ہے ۔فتح یقینا حق کی ہوگی کیونکہ نہ تو بھارت کی زمین آمریت کی فصل کے لئے موزوں ہے اور نہ یہاں کا موسم ،اور ہندو راشٹرکا نظریہ آمریت کی کوکھ سے ہی پیدا شدہ نظریہ ہے ۔
ہندوستان ایک کثیرالثقافتی، کثیرالمذاہب اور جمہوری ملک ہے۔ اس کی بنیاد جس آئینی نظریہ پر رکھی گئی، وہ سیکولرزم، برابری، انصاف اور جمہوری اقدار ہیں۔ لیکن جب ہم سنگھ پریوار کے نظریاتی ستون، آر ایس ایس کے دوسرے سربراہ (سرسنگھ چالک) ایم ایس گولوالکر کے بیانات اور خیالات کو دیکھتے ہیں، تو سوال پیدا ہوتا ہے: کیا ان کے نظریات ایک سیکولر اور جمہوری بھارت میں جگہ پا سکتے ہیں؟
مدھو سدھن گولوالکر (1906-1973) آر ایس ایس کے دوسرے سر سنگھ چالک تھے۔ ان کی سب سے متنازعہ کتاب "We, or Our Nationhood Defined” ہے، جس میں انہوں نے جرمنی کے فاشسٹ نظریہ کی تعریف کی اور ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کا تصور پیش کیا۔ ان کے مطابق، مسلمانوں، عیسائیوں اور دیگر غیر ہندو قوموں کو یا تو ہندو کلچر میں ضم ہو جانا چاہیے یا دوسرے درجے کے شہری بن کر رہنا چاہیے۔
وہ جملہ جو ہندوستانی سیکولرزم کے چہرے پر طمانچہ ہے۔
1940 میں گولوالکر نے واضح لفظوں میں کہا کہ "میں ساری زندگی انگریزوں کی غلامی کرنے کے لیے تیار ہوں مگر جو دلت، پچھڑوں اور مسلمانوں کو برابر کا حق دیتی ہو، ایسی آزادی مجھے نہیں چاہیے۔”
یہ جملہ صرف ایک انفرادی رائے نہیں تھی بلکہ آر ایس ایس کے اصل مزاج اور فکر کی نمائندگی کرتا تھا۔ گولوالکر کی نظر میں آزادی کا مطلب صرف ہندو اکثریت کی بالا دستی تھی، نہ کہ مساوات، اخوت اور انسانی وقار۔اور یہی وجہ ہے کہ تب سے اب تک جمہور پسند دانشور یہ کہتے اور لکھتے چلے آرہے ہیں کہ گولوالکر کے نظریات کی جمہوریت میں کوئی جگہ نہیں۔گولوالکر کے نزدیک سیکولرزم ایک مغربی سازش تھی۔ وہ ریاست اور مذہب کی علیحدگی کے قائل نہیں تھے، بلکہ چاہتے تھے کہ ہندوستان کا ہر شعبہ ہندو نظریات کے تحت ہو۔
ان کے بیانات اور تحریریں غیر ہندو اقلیتوں کو شک و شبہ اور نفرت کی نظر سے دیکھتی ہیں۔ وہ مسلمانوں اور عیسائیوں کو بیرونی قومیں کہتے تھے جن کی وفاداری پر ہمیشہ شک کیا جانا چاہیے۔
گولوالکر نے نہ صرف مذہبی اقلیتوں کی مخالفت کی بلکہ ذات پات کے نظام کو بھی سماجی توازن کا ذریعہ قرار دیا۔ ان کے مطابق برہمن سے شودر تک ہر ایک کو اپنی "قدرتی” حیثیت میں رہنا چاہیے۔
آج جب ملک کی سیاست میں سنگھ پریوار کا اثر بڑھ رہا ہے، تو گولوالکر کی پرانی تحریریں اور نظریات نئی جان پا رہے ہیں۔ ان کی شخصیت کو "وشوگرو” اور "درشیٹا” (دور اندیش رہنما) کہہ کر پیش کیا جا رہا ہے۔ اسکولی نصاب، تعلیمی ادارے، عدالتی تقاریر اور پالیسی سطح پر ان کے نظریات کی جھلک نظر آنے لگی ہے۔ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ جب
ملک کا آئین ہر شہری کو برابری، مذہبی آزادی اور شخصی آزادی کا ضامن بناتا ہے، تو گولوالکر جیسے شخص کے نظریات کو فروغ دینا آئینی بغاوت نہیں تو کیا ہے؟
کیا ایسے فرد کو قومی ہیرو بنایا جا سکتا ہے جس نے آزادی سے زیادہ ذات پات اور اکثریت پرستی کو اہمیت دی؟
ایک ایسے بھارت میں، جہاں دلت، مسلمان، قبائل، اور دیگر پچھڑے طبقے پہلے ہی حاشیے پر ہیں، گولوالکر کا نظریہ ان کے وجود کو مزید کمزور کرنے کا ذریعہ نہیں بن رہا؟
گولوالکر کے خیالات آج کے بھارت کے آئینی نظریہ سے متصادم ہیں۔ انہیں یاد رکھنا چاہیے، مگر ایک انتباہ کے طور پر — اس بات کی نشانی کے طور پر کہ کس طرح ایک فرد کا نظریہ قوم کو آمریت، نفرت اور تقسیم کی طرف لے جا سکتا ہے۔ اگر ہم واقعی آئین، جمہوریت، اور سیکولرزم کو عزیز رکھتے ہیں تو گولوالکر کے نظریات کی معنویت نہیں بلکہ مخالفت ضروری ہے۔