.بچپن سے پڑھتے اور سنت آئے ہیں لیکن پتہ نہیں کیوں اب اقبال کا یہ مصرع نہ تو پڑھنے کا جی چاہتا ہے اور نہ سننے میں اچھا لگتا ہے .پتہ نہیں ہمارے وطن کو کس کی نظر لگ گئی کہ کہیں سے کوئی اچھی خبر نہیں آرہی .جو اچھی خبر آتی بھی ہے تو اس میڈیا کے ذریعہ جو ہر اچھی خبر کو بری اور بری خبر کو اچھا بنا کر زبردستی سننے اور پڑھنے پر مجبور کرتا ہے .پرجا تنتر کے نام پر پرچہ تنتر بن چکے دیش میں ریاست کے سی ایم کے نام بھی پرچہ کٹ رہا ہے اور وہ بھی اس لئے کہ اس نے 21 ویں صدی میں ملک کے وزیر اعظم کے لئے تعلیم یافتہ ہونے کی مانگ کر ڈالی .اور پرچہ بھی وہ لوگ کٹوا رہے ہیں جن لوگوں کو اسکول کی بلڈنگ سے زیادہ شوچالئے بنانے والا وزیر اعظم زیادہ پسند ہے .
ابھی دہلی میں پوسٹر وار کا آغازہی ہوا تھا کہ بہار میں بھی ہورڈنگ وار شروع ہو گیا ہے .دہلی میں بھی پوسٹر وار شروع کرنے والا چیف منسٹر ہے اور بہار میں بھی .ایک بات دونوں میں مشترک ہے اسر وہ ہے ہدف .یعنی نشانے پر دہلی کا راجہ ہی ہے .بہار کے وزیر اعلیٰ کافی دنوں سے چپ چاپ تھے لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ کہیں ساری ریوڑیاں اندھوں میں نہ بٹ جائیں انہوں نے ہورڈنگ کے ذریعہ ہنکار بھرا کہ میں ہوں .
یعنی اب یہ طئے ہو چکا ہے کہ بنگال ،جھارکھنڈ ،بہار،مدھیہ پردیش ،مہاراشٹر ،چھتیس گڈھ ،راجستھان ،پنجاب اور لگ بھگ پورے جنوبی بھارت سے بی جے پی کے سب سے کرشمائی چہرے کو 2024 میں کڑا چیلنج ملنے والا ہے .
یہ جو اپوزیشن کے لیڈروں پر ایف آئی آر کا سلسلہ شروع ہوا ہے وہ اسی گھبراہٹ کا نتیجہ ہے .
کہا جاتا ہے کہ احساس برتری دراصل احساس کمتری نام کی بیماری کا آخری اسٹیج ہوتا ہے اور اس کے بعد مریض کا برباد ہونا طئے ہے .
ویسے ایک خاص قسم کی کھچڑی خود بی جے پی کے اندر بھی پک رہی ہے .اور یہ کھچڑی ناگپور کے چولھے پر چڑھی ہوئی ہے .ذرائع سے چھن چھن کر جو خبریں نکل رہی ہیں اس کے مطابق آر ایس ایس کے بڑوں میں یہ بات لگ بھگ طئے ہوچکی ہے کہ 2024 کے پہلے جب ساری ریاستوں کا اسمبلی الکشن ہو جائے گا تب ایک آخری اسر انٹرنل سروے خود آر ایس کریگی اور اس سروے کے نتیجے کی روشنی میں یہ طئے کیا جائے گا کہ نریندر مودی ہی بی جے پی کاچہرہ رہینگے یا پھر کسی اور چہرے پر بھی داؤ کھیلا جا سکتا ہے .
نتن گڈکری کے بگڑے بول کو بھی اسی ناگپوری سیاست سے جوڑ کر دیکھا جارہاہے .ہمیں یہ بھولنا نہیں چاہئے کہ نتن گڈکری ناگپور یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹ رہے ہیں اور آج بھی وہ اپنی مادر علمی پر فخر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمیں اپنے کئے گئے کام پر ووٹ ملتا تھا ملتا ہے اور ملتا رہیگا.اور موجودہ سرکار کے وزرا میں ان کا مقابلہ کوئی کر بھی نہیں سکتا .لیکن ان کی یہی خوبی مودی اینڈ کمپنی میں ان کی سب سے بڑی خرابی بھی ثابت ہو رہی ہے .لیکن آر ایس ایس اپنے تربیت یافتہ طالب علم کو اتنی آسانی سے گجرات لابی کا شکار نہیں ہونے دیگی .
کل ملا کر ملک میں ان دنوں سیاست کا بازار اتنا گرم ہے کہ اقتدار حاصل کرنے اور اس کو ہاتھ سے نہ جانے دینے کی للک میں سیاسی کوڑا بھی انمول ہو رہا ہے .اور یہی سیاسی داؤ پیچ ہے جس کا ٹارگیٹ صرف اور صرف اقتدار تک پہنچنا ہے یا اس کو ایک بار پھر حاصل کرنا ہے .
عوامی خدمات اور اور دیش کے لئے ترقی کی راہ ہموار کرنے کی سمت فیکھنے والی آنکھیں یا تو بجھ چکی ہیں یا اس پر کالا چشمہ چڑھ چکا ہے .
دیش کو ضرورت تو ایک بڑے بدلاؤ کی ہے لیکن اقتدار کے حصول کی کوشش میں جو سب سے بڑی خرابی ہے وہ یہی ہے کہ اس راہ میں اتنی مصالحت کرنی پڑتی ہے کہ اصل مقصد کہیں چھوٹ جاتا ہے .عوام اور اس کے مسائل پس پردہ چلے جاتے ہیں اور انجام یہ ہوتا ہے کہ پرجا تنتر کہیں دور بیٹھی سسکتی رہ جاتی ہے اور اس کے نام پر لوٹ تنتر کا بازار گرم ہوجاتا ہے .