دہلی میں منعقد حج کانفرنس میں لیے گئے فیصلے کچھ اخبارات میں مختلف طریقوں سے شائع ہوئے ہیں اس پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے حج کمیٹی آف انڈیا کے سابق ممبر حافظ نوشاد احمد اعظمی نے کہاکہ شاید یہ تاریخ میں پہلی بار ایسی حج کانفرنس ہوئی ہے جس میں میڈیاکو مدعو نہیں کیاگیا اور نہ تو بعد میں حج کمیٹی کے ذریعہ کوئی پریس ریلیز جاری کی گئی ، اسی لئے اخبارات میں طرح طرح سے خبریں شائع ہوئی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ 1999 میں وزیر اعظم آنجہانی اٹل بہاری جی واجپئی نے بھی حج کانفرنس کا افتتاح کیا تھا اور حج کانفرنس تقریباً 8 گھنٹے تک چلی تھی۔ قدیمی روایت رہی ہے کہ حج کانفرنس میں صوبائی حج کمیٹیوں کے چیئرمین اور مسلم ممبران پارلیمنٹ اور حج کمیٹی آف انڈیا کے ارکان خصوصی طور سے اپنے خیالات اور مطالبات رکھتے تھے۔یہ کس طرح کی شفافیت ہے کہ ذرائع ابلاغ سے سارے معاملے چھپائے جارہے ہیں۔ انھوں نے کہا حج کمیٹی آف انڈیا کے ذریعہ ماضی میں 7 سال پہلے تک جو حج ہوتا تھا سستا اور مثالی حج ہوتا تھا۔ مسٹر اعظمی جو تقریبا25 سالوں سے ملک کے عازمین حج کے مسائل کے سلسلے میں سر گر م رہتے ہیں اور اتر پردیش حج کمیٹی سے دوبار مرکزی حج کمیٹی میں ممبر بھی رہ چکے ہیں،نے کہا کہ حج کو ایک لاکھ روپئے کا سستا کرنے کا دعوی کرنے والے وقت سے پہلے سچائی سے پرے ہےں کیوں کہ جو نظام ہمارا سعودی عرب کے حکم کے تابع ہے اس میں ہم کوشش کے الفاظ استعمال ہونا چاہئے۔
حافظ نوشاد اعظمی نے کہا کہ 2016 سے حج کمیٹی آف انڈیا کی تشکیل میں حج ایکٹ کی خلاف ورزی کی گئی جو اس حکومت میں بھی اور آج بھی اپریل 2022 میں حج کمیٹی آف انڈیا موجود ہے وہ صرف 8 رکنی بنائی گئی اور اس میں بھی ایک ممبر پارلیمنٹ جو اب نہیں ہے۔ جس شخص کو حج کمیٹی آف انڈیا کا چیئرمین منتخب کیا گیا اس کی ممبر شپ خود ہی غیر قانونی ہے کیوں کہ وہ علما کوٹے میں نامزد ہوئے اور وہ عالم دین نہیں ہیں اس طرح وزارت کو باربار اعتراض کے بعد بھی یہ حج کمیٹی بھی تحلیل نہیں کی گئی سب سے پہلے محترمہ وزیر موصوفہ کو حج کمیٹی آف انڈیا کی جو بنیادی چیز ہے کہ کمیٹی ایکٹ 2002کے رو سے بننا پوری 23رکنی کمیٹی بناکر پھر سے وائس چیئرمین کا انتخاب کرا نا چاہیے۔
مسٹر اعظمی نے کہا کہ حج کمیٹی آف انڈیا میں روایت یہ رہی ہے کہ کمیٹی کے ذریعہ ہی کوئی قرار داد پاس کی جاتی ہے اور اس میں وزارت چاہے تو دخل دے کر اس میں سے کچھ چیزوں میں رد وبدل کرسکتی ہے مگر بغیر کمیٹی کی قرار داد کے وزارت کوئی بھی فیصلہ حج کمیٹی میں لاگونہیں کر سکتی۔ واضح رہے کہ حج ایکٹ 2002 آنجہانی اٹل جی کے زمانے میں بہت ہی سوچ سمجھ کر بنا ہے اور اپوزیشن کی حمایت کے بعد یہ پاس ہوا ہے۔ سب سے پہلے وزارت کے ذریعے ایکٹ کی خلاف ورزی کے سلسلے میں محترمہ وزیر موصوفہ کو ایک اعلیٰ سطحی جانچ کراکے ان افسران کی نشاندہی کراکے ان کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے ۔ موجود ہ حکومت میںپہلے بھی حج کو آسان اور سستا بنانے کا دعوی کیاجاچکاہے جس کے لیے باقاعدہ اعلان بھی کیا گیا کہ پانی کا جہاز چلایا جائے گا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق 2022 تک دھیرے دھیرے سبسڈی ختم ہونی تھی اسے وزارت کے ذریعہ2017 میں ہی 2018 کےلئے ختم کرنے کا اعلان کردیا گیا ۔یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق جو سبسیڈی 2011 میں 685 کروڑ جو وزارت کو دی جاتی تھی اس کےلئے یہ کہا گیا کہ مسلمانوں کی تعلیم اور ان کے شوشل ویلفیئر پر خرچ کی جائے۔مسٹر اعظمی نے کہا حج کمیٹی آف انڈیا میں جو بھی چیزیں پہلے روایتی طور پر موجود ہیں ڈاکٹروں کو سعودی عرب بھیجنا، حج کے زمانے میں خادم الحجاج بھیجنا، دوائیں بھیجنا یا ملک کے عازمین حج کے ایمبارگیشن پوائنٹ وغیرہ بڑھانا یاسول سروسیز کوچنگ کےلئے ممبئی حج ہاو¿س کے اخراجات اور یہ سارے فیصلے حج کمیٹی آف انڈیا کی میٹنگ میں اتفاق رائے سے قرار داد پاس کرکے وزارت سے منظور ہوئے ہیں۔ انھوں نے کہاکہ حج کمیٹی آف انڈیا جو 100سالہ ادارہ ہے اس کی قدیمی روایات ایک جھٹکے میں ختم کرنا تکلیف دہ ہوگا۔ مسٹر اعظمی نے کہاکہ یہ خالص مسلم مذہبی ادارہ ایسا ہے جس کے سارے اثاثے اور جو بھی فنڈ خرچ ہورہاہے وہ سب ملک کے مسلمانوں کی گاڑھی کمائی کا ہے ۔مرکزی حکومت کو اصلاحات کرنے کا حق حاصل ہے اور کرنا چاہئے۔ مسٹر اعظمی نے خصوصی طور سے محترمہ وزیر موصوفہ سے یہ مو¿دبانہ مطالبہ کیاہے کہ اس سلسلے میں سب سے پہلے حج کمیٹی آف انڈیا کی ایکٹ 2002 کے تحت پوری کمیٹی کی تشکیل کرائیں اورجو 9 ایمبارگیشن پوائنٹ وارانسی سمیت بند ہیں انھیں شروع کیا جائے۔ میرے علم میں خادم الحجاج وہاں کے کاونسلیٹ کو رپورٹ کرتے ہیں اور کاونسلٹ کے ذریعے ہی ان کی ڈیوٹی لگائی جاتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس سفر میں دوسرا ملک ہونے کی وجہ سے موسم کی تبدیلی ہوتی ہے اور عازمین حج کو بیمار ہونے کا سلسلہ لگا رہتاہے اس لیے وہاں ڈاکٹروں اور دواو¿ں کا پہلے سے جو نظام موجود ہے وہ بہت ضروری ہے۔ انھوں نے کہا کہ سفر حج کو آسان بنانے کے لیے پرانی روایات کو ختم نہیں کیا جاناچاہیے۔