واشنگٹن (ہ س)۔امریکی اخبار نیویارک پوسٹ کے مطابق، ہارورڈ یونیورسٹی اس وقت ایک قدامت پسند تحقیقاتی مرکز قائم کرنے پر غور کر رہی ہے، جو قدامت پسند محققین اور نظریات پر مبنی تحقیقی کام کو اسکالرشپ فراہم کرے گا۔ اس منصوبے کی لاگت 50 کروڑ سے ایک ارب ڈالر کے درمیان ہو سکتی ہے۔یہ پیش رفت ایسے وقت سامنے آئی ہے جب ہارورڈ یونیورسٹی کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے ساتھ شدید تناؤ کا سامنا ہے، جو یونیورسٹی پر یہود دشمنی” اور حد سے زیادہ "لبرل رجحانات” کا الزام عائد کر رہی ہے۔یہ بحران صدر ٹرمپ کی دوسری مدتِ صدارت کے آغاز سے شروع ہوا، جب امریکی محکمہ صحت و انسانی خدمات کی رپورٹوں میں بتایا گیا کہ "یہودی طلبہ کو تھوکا گیا اور انھیں ہراساں کیا گیا، جس کی وجہ سے وہ جسمانی طور پر غیر محفوظ” محسوس کرنے لگے۔ اس کے جواب میں انتظامیہ نے 30 جون کو جاری ایک سرکاری خط میں خبردار کیا کہ اگر ہارورڈ نے فوری اقدامات نہ کیے تو یونیورسٹی کو دیے جانے والے تقریباً 3.3 ارب ڈالر کے وفاقی فنڈز واپس لے لیے جائیں گے۔اسی ضمن میں ٹرمپ انتظامیہ نے بین الاقوامی طلبہ کو چھ ماہ کے لیے امریکا میں ہارورڈ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے داخلے سے بھی روک دیا … اگرچہ بعد میں ایک وفاقی جج نے اس اقدام کو معطل کر دیا۔یونیورسٹی نے اس کے رد عمل میں امریکی حکومت کے خلاف 2.2 ارب ڈالر کی گرانٹ منجمد کیے جانے پر قانونی چارہ جوئی کی ہے، اور اس مقدمے کی سماعت اگست میں مقرر ہے۔ اگرچہ یونیورسٹی کے صدر ایلن گاربر نے یہ تسلیم کیا کہ قدامت پسند آوازوں کی غیر موجودگی اور غیر مقبول آرا کے اظہار سے خوف ایک سنگین مسئلہ ہے جسے حل کرنا چاہیے، تاہم ہارورڈ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ وہ صدر ٹرمپ کے دباؤ کے سامنے نہیں جھکے گی اور نہ ہی اپنے نصاب، اساتذہ یا طلبہ کے انتخاب میں اپنی خود مختاری سے پیچھے ہٹے گی۔اس دوران جاری مذاکرات کے حوالے سے امریکی وزیرِ تعلیم لنڈا مکماہن نے کہا کہ فریقین کے درمیان "سنجیدہ پیش رفت” ہو رہی ہے اور ایک معاہدہ جلد طے پا سکتا ہے۔ اگرچہ ٹرمپ انتظامیہ نے ہارورڈ کی ابتدائی تجویز کو فوراً مسترد کر دیا، تاہم با خبر ذرائع نے واضح کیا ہے کہ "نیا تحقیقاتی مرکز بنانا ان مذاکرات میں سودے بازی کا حصہ نہیں ہے۔