راہل گاندھی کے حالیہ پارلیمانی بیان اور اس کے بعد سپریم کورٹ میں اس پر سوال اٹھنے کے پس منظر کو دیکھا جائے تو یہ کوئی حیرت انگیز خبر نہیں بلکہ سنگین مستقبل کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔ یہ موضوع ایک تفصیلی اور گہرے تجزیہ کا متقاضی ہے ۔کیونکہ سپریم کورٹ کے ایک جج کا راہل گاندھی پر یہ بیان اس وقت منظر عام پر آیا ہے جب راہل گاندھی اور نریندر مودی دونوں آمنے سامنے ہیں ۔اور آپریشن سیندور پر گفتگو کرتے ہوئے راہل گاندھی نے بلا جھجھک بھرے پارلیامنٹ میں یہ کہدیا ہے کہ آپریشن سیندور پہلگام میں ہونے والے دہشت گردانہ حملہ کے انتقام کے لئے نہیں تھا بلکہ نریندر مودی کی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے کے لئے تھا ۔اور اگر میرا کہنا غلط ہے تو نریندر مودی کو بطور وزیر اعظم پارلیامنٹ میں کھڑے ہو کر یہ بیان دینا ہوگا کہ امریکہ کے صدر یہ جھوٹ بول رہے ہیں کہ اس آپریشن کو انہوں نے رکوایا ۔
راہل گاندھی کے اس چیلنج کے بعد نریندر مودی کے پاس اب اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا کہ وہ راہل گاندھی کو کسی ایسے مورچہ پر شکست دیں جو مورچہ آزمودہ ہو جہاں سے پورا ملک اور پوری دنیا راہل کے خلاف تبصرے کو نہ صرف سنے بلکہ اس پر یقین بھی کرے حالانکہ
پارلیمان میں حزب اختلاف کے سب سے بڑے لیڈر راہل گاندھی کا چین کے حوالے سے بیان کوئی نیا یا حیران کن انکشاف نہیں تھا۔ یہ ایک ایسی سچائی ہے جو اب سرحدی علاقوں سے لے کر سیاسی گلیاروں تک گونج رہی ہے۔ لداخ کے مقامی رہنما، سابق فوجی افسران، صحافی، ماہرین دفاع اور یہاں تک کہ ریٹائرڈ بیوروکریٹس بھی اس حقیقت کو تسلیم کر چکے ہیں کہ چین نے بھارت کی سرزمین پر قبضہ کیا ہے۔(لیکن اس کا کوئی علم اگر نہیں ہے تو عزت مآب جج صاحب کو۔)ایسے میں اگر ایک منتخب رکن پارلیمان ایوان میں کھڑے ہوکر یہی بات کہے تو اس پر غداری یا حب الوطنی کے پیمانے طے کرنا جمہوریت کے لیے خطرناک اشارہ ہے۔لیکن زیادہ افسوسناک اور تشویشناک پہلو تب سامنے آیا جب اس بیان پر ایک مقدمہ سپریم کورٹ میں لے جایا گیا، اور وہاں ایک معزز جج نے یہ سوال اٹھا دیا کہ "راہل گاندھی کو حکومت پر الزام لگانے سے پہلے پختہ ثبوت دینے ہوں گے۔” یہ جملہ صرف ایک سیاسی رہنما کے بیانیے پر سوال نہیں، بلکہ پورے جمہوری نظام کی روح پر کاری ضرب ہے۔
عدالتوں کا کام صرف انصاف کرنا نہیں ہوتا بلکہ انصاف ہوتا ہوا دکھانا بھی ہوتا ہے۔ لیکن جب ایک عوامی نمائندہ، جو 30 کروڑ سے زائد لوگوں کی آواز بن کر ایوان میں بات کر رہا ہو، اس کی نیت پر سوال اٹھایا جائے، تو یہ انصاف کی کرسی پر بیٹھے افراد کی غیرجانبداری پر شبہات پیدا کرتا ہے۔ راہل گاندھی کوئی عام شخص نہیں، وہ نہ صرف ملک کے سب سے پرانے سیاسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ ایک ایسی جماعت کی قیادت کرتے ہیں جو ملک کو آزادی دلانے والی طاقت تھی اور آج بھی ان کے پاس برسر اقتدار جماعت کو حاصل ووٹ 24کروڑ کے مقابلہ 30 کروڑ ووٹرس کی حمایت حاصل ہے ۔ایسے میں اگر وہ پارلیمنٹ میں قومی سلامتی یا سرحدی مسائل پر سوال اٹھاتے ہیں، تو اسے غداری یا "ثبوت کی کمی” کے نظریہ سے نہیں دیکھا جانا چاہیے بلکہ ایک سنجیدہ مکالمے کی بنیاد کے طور پر قبول کیا جانا چاہیے۔ اس کی مخالفت یا جواب حکومت دے سکتی ہے، لیکن عدالتوں کا اس بحث میں اس انداز سے مداخلت کرنا نہ صرف آئینی حدود کی خلاف ورزی ہے بلکہ ادارہ جاتی توازن کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔
چین کا بھارت کی زمین پر قبضہ صرف ایک سیاسی نعرہ نہیں
یہ بات اب کوئی راز بھی نہیں کہ وادی گلوان اور دیگر سرحدی علاقوں میں چین نے بھارت کی پرانی پوزیشنز کو تبدیل کر دیا ہے۔ 2020 کے بعد کئی بار سرحدی کشیدگی ہوئی، درجنوں جوان شہید ہوئے، اور پھر دونوں ممالک کے درمیان طویل مذاکرات ہوئے، مگر سچائی آج بھی وہی ہے: بھارت اپنی پرانی سرحدی پوزیشن پر واپس نہیں آ پایا۔
تو پھر سوال یہ ہے کہ کیا عام شہری، فوجی اہلکار، دفاعی تجزیہ نگار سب جھوٹ بول رہے ہیں؟ اگر نہیں، تو پھر راہل گاندھی کا بیان تو انہی آوازوں کی بازگشت ہے، جو سرحدوں سے لے کر شہروں تک سنائی دیتی ہے۔
یہ پہلی بار نہیں ہے جب اپوزیشن کے لیڈر کو حب الوطنی کے ترازو میں تولا جا رہا ہے۔ لیکن یہ ضرور پہلی بار ہے کہ سپریم کورٹ جیسا ادارہ بھی اس عمل میں شامل ہوتا دکھائی دیا۔ یہ ایک خطرناک نظیر قائم کر رہا ہے۔ اگر آج راہل گاندھی کے بیان کو عدالت میں گھسیٹا گیا، تو کل کسی صحافی، کسی طالب علم یا کسی عام شہری کے سوال پر بھی یہی مقدمے قائم ہوں گے۔
یاد رکھنا ہوگا کہ جمہوریت صرف ووٹ دینے سے نہیں چلتی، بلکہ سوال کرنے سے زندہ رہتی ہے۔ اگر سوال کرنے والے کو ہی کٹہرے میں کھڑا کر دیا جائے، تو پھر یہ جمہوریت نہیں بلکہ آمریت کی تصویر ہوگی۔ایسے میں ملک کے ہر باشعور شہری کو ،دانشور اور سیاسی تجزیہ نگار و صحافی کو یہ فراموش کر کے کہ وہ کس پارٹی کس نظریہ یا کس ادارے سے منسلک ہیں کھل کر جمہوریت کے حق میں آواز اٹھانی ہو گی کیونکہ ملک کے اداروں کی غیرجانبداری بچانا ضروری ہے۔
اس وقت ملک میں جو سیاسی اور عدالتی ماحول بن رہا ہے، وہ نہ صرف آئینی اصولوں بلکہ جمہوریت کی بنیادی روح کے خلاف ہے۔ اداروں کی غیرجانبداری، عدلیہ کی خودمختاری، اور اظہار رائے کی آزادی، یہ سب مل کر ایک جمہوری ریاست کی ضمانت ہوتے ہیں۔ اگر یہ سب خطرے میں پڑ گئے، تو پھر نہ صرف راہل گاندھی، بلکہ ہر باشعور ہندوستانی کو یہ سوچنا پڑے گا کہ ہم کس سمت جا رہے ہیں۔