• Grievance
  • Home
  • Privacy Policy
  • Terms and Conditions
  • About Us
  • Contact Us
پیر, دسمبر 8, 2025
Hamara Samaj
  • Home
  • قومی خبریں
  • ریاستی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ ؍مضامین
  • ادبی سرگرمیاں
  • کھیل کھلاڑی
  • فلم
  • ویڈیوز
  • Epaper
  • Terms and Conditions
  • Privacy Policy
  • Grievance
No Result
View All Result
  • Home
  • قومی خبریں
  • ریاستی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ ؍مضامین
  • ادبی سرگرمیاں
  • کھیل کھلاڑی
  • فلم
  • ویڈیوز
  • Epaper
  • Terms and Conditions
  • Privacy Policy
  • Grievance
No Result
View All Result
Hamara Samaj
Epaper Hamara Samaj Daily
No Result
View All Result
  • Home
  • قومی خبریں
  • ریاستی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ ؍مضامین
  • ادبی سرگرمیاں
  • کھیل کھلاڑی
  • فلم
  • ویڈیوز
Home اداریہ ؍مضامین

حضرت مولانا نسیم اختر شاہ قیصر صاحبؒ استاذ دارالعلوم وقف دیوبند

Hamara Samaj by Hamara Samaj
نومبر 23, 2022
0 0
A A
حضرت مولانا نسیم اختر شاہ قیصر صاحبؒ استاذ دارالعلوم وقف دیوبند
Share on FacebookShare on Twitter

ڪابن الانور محمد فیصل عثمانی دیوبندی

یہ فیضانِ نظر تھا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی
مورخہ ۱۱؍ستمبر۲۰۲۲ء برو زاتوار کی شام کو انتہائی رنج والم کے ساتھ یہ غیر متوقع خبر ملی کہ میرے مخلص، کرم فرما، محسن اور اردو کے نامور ادیب و نثر نگار، علمی خانوادے کے چشم و چراغ، قابلِ احترام مولانا سید نسیم اختر شاہ قیصر استاذ دارالعلوم وقف دیوبند کا سانحہ ارتحال ہوگیا ہے، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین
مولانا ممدوح دیوبند کی علمی، دینی،ا دبی اور صحافتی روایتوں کے ترجمان اور امین تھے، ان کا علم اور قلم گزشتہ پینتالیس سال سے صفحہ و قرطاس پر اپنی لازوال تحریروں اور علمی خدمات کی بنیاد پر اہل علم و دانش سے خراج و تحسین حاصل کر رہا تھا، ان کی خاکہ نگاری میں خوبصورت جملوں کے ساتھ جو منظر کشی ہوتی ہے وہ قابلِ دید اور دل کو موہ لینے والی ہوتی ہے، یہ بنیادی عنصر دوسرے قلم کاروں میں خال خال ہی نظر آتا ہے۔
دیوبند ایک قدیم اور تاریخی بستی ہے، ہمیشہ اس کی یہ روایت رہی ہے کہ یہاں دیگر علوم و فنون کے ساتھ کوئی زمانہ اہلِ علم اور اہلِ کمال لوگوں سے خالی نہیں رہا، جہاں ایک کے بعد ایک قابل ترین شخصیتیں خداوند قدوس نے اس سرزمین کو عطاء کی ہیں، ان ہی میں ایک صاحبِ علم ، صاحبِ کمال افراد میں مولانا سید نسیم اختر شاہ قیصر بھی تھے جو آج جوارِ رحمت میں منتقل ہوچکے ہیں۔ مولانا کی پیدائش ۲۵؍ اگست۱۹۵۸ء کو ایک علمی اور دینی گھرانے میں ہوئی، ان کے والد مولانا سید محمد ازہر شاہ قیصرؒ ماہنامہ ’’دارالعلوم دیوبند‘‘ کے مدیر اور قلمی ترجمان تھے، ملک و بیرونِ ملک کے تمام بڑے علماء، زعماء، نیز دانشوروں، ادیبوں اور شاعروں سے گہرے تعلقات وروابط تھے۔ موصوفؒ کے دادا امام العصر حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ، حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب دیوبندیؒ کے نہایت قابل ترین شاگرد اور امام ربانی فخرالمحدثین حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کے خلیفہ مجاز کے ساتھ دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث و صدرالمدرسین کے عظیم منصب پر فائز تھے، وہ اسلام کے زبردست مبلغ، داعی اور مجاہد تھے۔ وہ اپنے وقت کے عظیم محدث اور دارالعلوم دیوبندکی ڈیڑھ سو سالہ تاریخ کے صفحۂ اول کے اصحابِ فضل وکمال میں ان کا شمار ہے۔
مولانا سید نسیم اختر شاہؒ کی ابتداء سے انتہاء تک کی تعلیم دارالعلوم دیوبند میں ہوئی، ان کی خوش نصیبی یہ بھی رہی کہ وہ جس زمانے میں دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوئے اس وقت دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ و فخر روزگار علماء میں امام العصر حضرت علامہ کشمیریؒ کے نامور تلامذہ موجود تھے جیسے مسند اہتمام پر حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب قاسمیؒ جلوہ افروز تھے۔ مسند صدارت پر شیخ الحدیث حضرت علامہ سید فخرالدین مرادآبادیؒ اور ناظم تعلیمات کے عہدے پر حضرت مولانا سید اختر حسین میاں دیوبندیؒ رونق افروز تھے۔
اور شوریٰ میں مفکر ملت حضرت مولانا مفتی عتیق الرحمن عثمانیؒ، مورخ ہند حضرت مولانا سید محمد میاں دیوبندیؒ، حضرت مولانا حامد الانصاری غازیؒ، حضرت مولانا سعید احمد اکبرآبادیؒ، حضرت مولانا قاضی زین العابدین سجاد میرٹھی جیسی تاریخ ساز شخصیتیں موجود تھیں۔ مولانا نے دارالعلوم میں قرآن کریم پڑھا، اسی کے ساتھ اردو دینیات کی کتابیں بھی زیر درس رہیں، پھر فارسی، ریاضی، عربی کا دور چلا جن میں بعض اساتذہ کے نام مع کتابوں کے حسبِ ذیل ہیں:
انوارِ سہیلی: حضرت مولانا مفتی فضیل الرحمن ہلال عثمانی سے پڑھی۔ گلستاں، بوستاں، رقعات عالمگیری، اقلیدس، سکندر نامہ: مولانا مشفع حسین صاحب دیوبندیؒ سے پڑھیں۔ مثنوی مولانا روم:، سرور المحزون: حضرت مولانا رحم الٰہی صاحبؒ سے پڑھیں۔ دیگر اساتذہ میں مولانا سید نورالحسن صاحب دیوبندیؒ، مولانا کفیل احمد علویؒ، مولانا عقیل احمد دیوبندیؒ، مولانا محمد خالد رامپوریؒ، ماسٹر ظفر کالو بھی شامل ہیں۔
عربی جماعت کے اساتذہ: میزان الصرف و منشعب، نحو میر، پنج گنج، فصول اکبری: مولانا شمیم احمد صاحب دیوبندیؒ سے پڑھیں۔ ہدایۃ النحو: مولانا محمد ہارون صاحب دیوبندیؒ سے پڑھی۔ نورالانوار، اصول الشاشی: مولانا بہاء الحسن صاحب مرادآبادی سے پڑھیں۔ علم الصیغہ: حضرت مولانا محمد عثمان صاحب نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند سے پڑھی۔ سلم العلوم، ترجمہ قرآن کریم، شرح جامی، نورالایضاح، شرح ابن عقیل: حضرت مولانا حامد میاں صاحبؒ سے پڑھیں۔ مختصرالمعانی، شرح تہذیب، شرح ابن عقیل کا کچھ حصہ، نفحۃ العرب: حضرت مولانا زبیر احمد صاحب دیوبندیؒ سے پڑھیں۔ دیوانِ متنبی: حضرت مولانا عبدالخالق صاحب مدراسی سے پڑھی۔ حسامی : حضرت مولانا محمد ہاشم بخاری صاحبؒ سے پڑھی۔ تفسیر بیضاوی: حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالن پوریؒ سے پڑھی۔ ہدایہ آخرین و جامع الترمذی جلد اوّل: حضرت مولانا معراج الحق صاحب دیوبندیؒ سے پڑھیں۔ ہدایہ اولین : حضرت مولانا ریاست علی صاحب بجنوریؒ سے پڑھی۔ تفسیر جلالین نصف اوّل، شرح عقائد : حضرت مولانا خورشید عالم صاحبؒ سے پڑھیں۔ تفسیر جلالین نصف ثانی: حضرت مولانا مفتی شکیل احمد سیتاپوری سے پڑھی۔ مشکوٰۃ المصابیح، ابودائود شریف، جامع الترمذی ثانی: خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم قاسمی صاحبؒ سے پڑھیں۔ صحیح مسلم جلد اول : حضرت مولانا محمد نعیم صاحب دیوبندیؒ سے پرھی۔ صحیح مسلم جلد ثانی:حضرت مولانا حسین ملا بہاری صاحبؒ سے پڑھی۔ صحیح بخاری جلد اول : شیخ الحدیث حضرت مولانا نصیر احمد خاں بلند شہریؒ سے پڑھی۔ صحیح بخاری جلد ثانی: شیخ الحدیث حضرت مولانا سیدانظر شاہ کشمیریؒ سے پڑھی۔ موطا امام محمدؒ : حضرت مولانا فیض الحسن صاحب کشمیریؒ سے پڑھی۔ موطا امام مالک: حضرت مولانا مفتی نظام الدین صاحب اعظمی سے پڑھی۔نسائی شریف و مقامات حریری: حضرت مولانا وحید الزماں صاحب کیرانویؒ سے پڑھیں اور قراء ت کی مشق مولانا قاری احمد میاں صاحب کے پاس رہ کر کی اور امتیازی نمبرات کے ساتھ دارالعلوم دیوبند سے ۱۹۸۱ء میں فراغت حاصل کی۔ان کے درسی رفقاء میں مولانا عبید اقبال عاصم، مولانا مفتی سلیمان ظفر قاسمی، مولانا عبدالمنان قاسمی، ڈاکٹر عدنان انور نعمانی قاسمی، مولانا حماد قاسمی، مولانا نجم الحسن بہاریؒ، مولانا غلام رسول قادر کشمیری، مولانا محمد طیب ہردوئی جیسے افراد شامل ہیں۔ طالب علمی کے زمانے سے ہی کتب بینی و مطالعہ کے رسیا اور دانشوروں کی تحریروں کو پڑھنے کے شوقین تھے، نیز ان میں صاحبِ علم، صاحب قلم حضرات کی تصنیفات کو جمع کرنے کا جذبہ بھی موجزن تھا، اردو کے نامور قلم کاروں، انشاء پردازوں، نقادوں ، ناول نگاروں کو خوب پڑھا اور ان کے اندازِ تحریر سے استفادہ بھی کیا۔ وہ خود بھی کہا کرتے تھے کہ میں نے مولانا ابوالکلام آزادؒ، مولانا عبدالماجد دریابادیؒ، مولانا صادق حسین سردھنویؒ، مولانا عامر عثمانیؒ، مولانا سید محمد ازہر شاہ قیصرؒ، شوکت تھانویؒ، رشید احمد صدیقی، سعادت حسن منٹو، شورش کاشمیری، ابن صفی، خواجہ حسن نظامی، جمیل مہدی جیسے بڑے لکھنے والوں کا بارہا مطالعہ کیا ہے اور ان کے اسلوبِ نگارش سے مجھے نئی نئی منزلیں بھی ملی ہیں۔ دورانِ تعلیم ہی ان کی تحریری و صحافتی زندگی کا آغاز ہوچکا تھا، ان کے مضامین مقامی و بیرونی اخبارات و رسائل میں شائع بھی ہونے لگے تھے کیوںکہ گھر کے علمی اور ادبی ماحول نے ان کی صلاحیتوں میں چار چاند لگادئیے تھے۔ قوتِ حافظہ بڑا مضبوط تھا۔ مطالعہ کی وسعت، کثرتِ معلومات، ذہانت و فطانت نے افکار کی نئی بلندیوں پر پہنچا دیا تھا۔ ادب و صحافت کی زمینی سطح پر انہیں دسترس حاصل تھی، لکھنے کا طریقہ اپنے ماضی ضمیر کو اظہا ر کرنے کا سلیقہ والد محترم کی تربیت کے طفیل فراہم ہوا۔ جس کا رنگ و آہنگ ان کی گفتگو اور تحریر میں بھی جھلکتا تھا۔ میری مولانا سے شناسائی کب ہوئی؟ یہ بتانے کے لئے پیچھے لوٹنا ہوگا۔ یہ ۱۹۹۲ء کی بات ہے میں شعور کی منزل پہ قدم رکھ رہا تھا کہ محلہ محل کی مسجد کے راستے سے ایک صاحب صبح و شام کو آتے جاتے دکھائی دیتے، جن کا سراپا ذہن میں کچھ اس طرح محفوظ ہے : معتدل جسم، پستہ قد، سر پر دیوبندی ٹوپی، تیز رفتار، پیشانی پر ذہانت کی لکیریں، اپنی وضع قطع سے ایک مولوی نظر آتے تھے۔ کون ہیں؟کہاں کے ہیں؟ کچھ نہیں معلوم، پھر کچھ روز بعد ایک صاحب کے ذریعے معلوم ہوا کہ یہ مولانا نسیم اختر شاہ قیصر ہیں اور حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کشمیریؒ کے پوتے ہیں۔ یہاںسے میرے دل میں ان کی عظمتوں کے چراغ روشن ہوئے۔ یہ ان کی عین جوانی کا دور تھا اور شباب کی تمام رعنائیاں ان پر عیاں تھیں۔ ان دنوں مولانا نے درسِ نظامی کی کتابوں کے قدیم شارح حضرت مولانا محمد حنیف صاحب گنگوہیؒ کی بعض شروحات پر تصحیح کے فرائض بھی انجام دئیے۔ مولانا کی شادی دیوبندکے مشہورتعلیمی ادارہ ’’تعلیم منزل‘‘ میں ایک دینی گھرانے میں محترمہ بشریٰ نکہت سے ہوئی، جو ایک بہترین افسانہ نگار بھی ہیں، ان کا مجموعہ ’’جاگتے لمحے‘‘ کے نام سے منصہ شہود پر آیا ہے۔
۱۹۹۳ء کے آس پاس مولانا نسیم اختر شاہ قیصر دارالعلوم وقف دیوبند سے وابستہ ہوئے، جو اس وقت جامع مسجد میں قائم تھا، یہاں سے مولانا کی تدریسی زندگی کا آغاز ہوا، جو کتابیں انتظامیہ کی طرف سے تدریس کے لئے دی گئیں وہ انہوں نے خوش دلی اور کامیابی کے ساتھ پڑھائیں۔ کسی کتاب کے لئے انہوں نے نہ کبھی فرمائش کی، نہ سفارش، نہ انہیں کسی بات کا شکوہ رہا۔ تفسیر و ترجمہ کلام پاک، مفید الطالبین، گلستاں، پندنامہ، قدوری کے اسباق کے ساتھ دیگر عربی درجات کی کتابیں بھی ان سے متعلق تھیں۔ تدریس کے ساتھ ماہنامہ ’’ندائے دارالعلوم وقف‘‘ کے مدیر مسئول بھی رہے۔ عم محترم شیخ الحدیث حضرت مولانا سید محمد انظر شاہ کشمیریؒ صدرالمدرسین دارالعلوم وقف دیوبند کے حکم و ایماء پر مولانا نے میدانِ خطابت میں قدم رکھا اور اس سلسلہ میںچند مشورے بھی دئیے۔ اس میدان میں ان کے رہبر اور مشیر کار بنے مبلغ اعظم حضرت مولانا سید ابوالکلام صاحب دیوبندیؒ جنہوں نے مولانا کی بھرپور رہنمائی کی ، وہ اجلاس و دیگر تقاریب میں اپنے ہمراہ بھی لے جانے لگے۔ اسٹیج پر مولانا نسیم اختر شاہ قیصر کا پر زور انداز میں تعارف کراتے اور حوصلہ افزاء کلمات کے ساتھ مولانا کا بیان بھی کرواتے، جس سے عوام و خواص ان کے گرویدہ رہتے۔ یہ سلسلہ کافی سال تک چلا اورمولانا اپنا حلقہ بنانے میںکامیاب ہوگئے۔اس منزل پر پہنچنے میں ان کے اخلاق و کردار کا بھی بڑا دخل ہے۔ مولانا سید نسیم اختر شاہ قیصر جلسوں و کانفرنسوں میں مدعو کئے جانے لگے، جلسہ ختم بخاری کا ہو یا دستار بندی کا، ہر اسٹیج پر انہوں نے علمی صلاحیتوں کا سکہ عوام کے دلوں پر جمایا، تقریر بڑی رواں دواں تھی، ان کے خطیبانہ سحر انگیز سے ہر کوئی متاثر ہوتا کیوںکہ ان کے یہاں سلاست، روانی، تسلسل ،فکری بصیرت کے ساتھ الفاظ، تعبیرات اور جملوں کی بڑی آمد تھی۔ دورانِ خطابت سامعین تو سامعین اہل اسٹیج کی نظر عنایت بھی مولانا کے بصیرت افروز خطاب پر مرکوز رہتی۔ بعض اجلاس میں مولانا خاکسار کو بھی ساتھ لے گئے۔ سفر اور حضر دونوں جگہ میں نے ان کو صاف دل انسان پایا۔ جوہر شناسی ان کے مزاج کا عنصر تھی۔ خانقاہ کی بڑی مسجد میں جمعہ کے روز نماز سے قبل مولانا دینی موضوعات پر خطاب بھی فرماتے تھے، یہ سلسلہ کافی سال سے جاری تھا۔ مولانا کی تقاریر کے دو مجموعہ خطبات شاہی اور حرف تابندہ کے نام سے شائع ہوچکے ہیں۔ مولانا نے وقت، حالات اور طلبہ کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے شاہ منزل پر ’’مرکز نوائے قلم دیوبند‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا، جس میں خاص طور پر وہ طلبہ جو مضمون نگاری کا شوق رکھتے ہوں یا جن کا املاء درست نہیں ہے یا پھر وہ مبتدی طلبہ جو تحریر و تقریر لکھنے کے خواہش مند ہیں ایسے طلبہ کے لئے مرکز نوائے قلم میں شام کو نشست لگتی، وہاں مولانا کسی کا املا لکھوا رہے ہیں، کسی کے مضمون کی اصلاح کر رہے ہیں، کسی کو اس فن سے آشنا کر رہے ہیں، سمجھا رہے ہیں، بتا رہے ہیں، کسی کو کتابوں کی نشاندہی کروائی جارہی ہے۔ یہ واقعی بڑا لائقِ تعریف اور مستحسن قدم تھا۔ اس ادارہ سے بہت سے نوجوان فضلاء کی ایک ٹیم میدانِ صحافت کی تیار ہوئی ہے، جن کا آج الحمد للہ اچھا لکھنے والوں میں شمار ہونے لگا ہے۔ ان میں مولانا فاروق اعظم عاجز قاسمی، مولانا شعیب علی گڑھی، مولانا مفتی محمد ساجد کھجناوری، مولانا مفتی محمد حسین قاسمی، مولانا ابوامامہ قاسمی، مولاناسعید ہاشمی ، مولانا شاہ نواز بدر قاسمی، مولانا سلیم انورقاسمی، مولانا مفتی محمد نسیم رحمانی، حافظ عمر الٰہی عثمانی، عبداللہ عثمانی مرحوم جیسے لوگ شامل ہیں۔ مولانا سید نسیم اختر شاہ قیصر اپنے والد محترم کی طرح مجلس نشین بھی تھے۔ دیوبند میں ان کا حلقۂ احباب بڑا وسیع تھا، ان کی تابندہ اور دل نشیں مجلسیں ہنسی کا انمول خزانہ ہوتی تھیں، جہاں لطیفے جنم لیتے تھے، قہقہوں کی حکمرانی سنجیدہ لوگوں کے دلوں پر بھی ہو تی۔ مولانا کی حاضر جوابی، بذلہ سنجی اور قوتِ گویائی سے ہر شخص لطف اندوز ہوتا تھا۔ ہر موضوع پر ظریفانہ گفتگو ہوتی تھی، ان کی نشست گاہ پر ملنے جلنے والوں کی بڑی آمد رہتی تھی، یہ باغ و بہار مجلس ناشتے کے بعد ہی اختتام کی منزل کو پہنچتی۔ آج مولانا ہمارے درمیان نہیں ہیں، اور مجلس کا شیرازہ بھی بکھر چکا ہے،تو بے ساختہ یہ شعر ذہن کے نہا خانوں میں گونجنے لگتا ہے:
اکیلا ہوں مگر آباد کردیتا ہوں ویرانہ
بہت روئے گی میرے بعد میری شام تنہائی
لوک ڈائون کے دوران مولانا نے کئی تحقیقی کتابیں تالیف کیں، انہیں کتابت و تصحیح کرکے شائع کیا اور اہل علم کے بڑے مجمع کے ہاتھوں ان کا رسمِ اجراء بھی کرایا، کیوںکہ موصوف لکھنے اور کام کرنے کے دھنی تھے، اپنے والد محترم کی کتاب ’’یادگارِ زمانہ ہیں یہ لوگ‘‘ کوازسر نو ترتیب دی اور اس میں مزید اضافہ بھی کیا۔ ان کی دو درجن سے زائد تالیفات بھی شائع ہوچکی ہیں۔ نثر کی طرح مولانا نے شعر و ادب کا انتہائی پاکیزہ ذوق بھی پایا تھا، ان کا کلام سچائی، پاکیزگی، شگفتگی کے ساتھ دلکشی، سادگی و رعنائی سے مزین تھا۔ شاعری کی دنیا میں وہ ’’راز دیوبندی‘‘ کے نام سے متعارف تھے۔ مولانا کا کلام ملک کے معتبر اخبارات میں شائع بھی ہوا ہے۔ عیدالاضحیٰ کے بعد کمر کی نسیں دبنے کی تکلیف شروع ہوئی جو ہوتے ہوتے انہیں بستر مرگ تک لے گئی۔ ہر طرح کے علاج و معالجہ سے انہیں آرام بھی ہوا، وہ خود بھی مطمئن ہوئے کہ الحمد للہ اب ٹھیک ہوجائوں گا۔۳؍ اگست۲۰۲۲ء بروز بدھ کو خاکسار اور جناب حاجی محمد اسعد صدیقی صاحب مولانا کی عیادت کے لئے شاہ منزل پہنچے ، بالائی منزل پر ہی ہمیں بلا لیا، جہاں ان کی بیماری اور صحت سے متعلق گفتگو رہی، مگر وہ ہر رخ سے پرسکون اور اطمینان بخش نظر آرہے تھے، کہہ رہے تھے کہ خدا کا شکر ہے پہلے سے کافی آرام ہے۔ آپ سب لوگ بھی دعا کریں کہ اللہ خیر و عافیت کے ساتھ رکھے۔ اس کے بعد بھی ان سے موبائل پر خیر خیریت معلوم کرتا رہا، پھر وفات سے تین روز قبل بھی میں ان کی خدمت میں عیادت کے لئے حاضر ہوا، جب بھی ان کی زبان پر اللہ تعالیٰ کا شکر اور دعائیہ الفاظ ہی تھے۔ ۱۱ستمبر ۲۰۲۲ء بروز اتوار کو مولانا پرہارٹ فیل کا عارضہ پیش آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے شام کو ساڑھے پانچ بجے وہ مولائے حقیقی سے جا ملے، انا للہ و انا الیہ راجعون۔رات گیارہ بجے جامعہ امام محمد انور شاہ میں مولانا کا جنازہ لایا گیا اور بڑے فرزند مولانا مفتی سید عبید انور شاہ قیصر استاذ حدیث و فقہ جامعہ امام محمد انور شاہ دیوبند نے ہزاروں افراد کی موجودگی میں نماز جنازہ پڑھائی اور نمناک آنکھوں کے ساتھ قبرستانِ انوری میں تدفین عمل میں آئی۔
’’کیا خوب آدمی تھا خدا مغفرت کرے‘‘

ShareTweetSend
Plugin Install : Subscribe Push Notification need OneSignal plugin to be installed.
ADVERTISEMENT
    • Trending
    • Comments
    • Latest
    شاہین کے لعل نے کیا کمال ،NEET امتحان میں حفاظ نے لہرایا کامیابی کا پرچم

    شاہین کے لعل نے کیا کمال ،NEET امتحان میں حفاظ نے لہرایا کامیابی کا پرچم

    جون 14, 2023
    ایک درد مند صحافی اور مشفق رفیق عامر سلیم خان رحمہ اللہ

    ایک درد مند صحافی اور مشفق رفیق عامر سلیم خان رحمہ اللہ

    دسمبر 13, 2022
    جمعیۃ علماء مہا راشٹر کی کامیاب پیروی اور کوششوں سے رانچی کے منظر امام  10سال بعد خصوصی این آئی اے عدالت دہلی سے ڈسچارج

    جمعیۃ علماء مہا راشٹر کی کامیاب پیروی اور کوششوں سے رانچی کے منظر امام 10سال بعد خصوصی این آئی اے عدالت دہلی سے ڈسچارج

    مارچ 31, 2023
    بھارت اور بنگلہ دیش سرحدی آبادی کے لیے 5 مشترکہ ترقیاتی منصوبے شروع کرنے پر متفق

    بھارت اور بنگلہ دیش سرحدی آبادی کے لیے 5 مشترکہ ترقیاتی منصوبے شروع کرنے پر متفق

    جون 14, 2023
    مدارس کا سروے: دارالعلوم ندوۃ العلماء میں دو گھنٹے چلا سروے، افسران نے کئی دستاویزات کھنگالے

    مدارس کا سروے: دارالعلوم ندوۃ العلماء میں دو گھنٹے چلا سروے، افسران نے کئی دستاویزات کھنگالے

    0
    شراب پالیسی گھوٹالہ: ای ڈی کی ٹیم ستیندر جین سے پوچھ گچھ کے لیے تہاڑ جیل پہنچی

    شراب پالیسی گھوٹالہ: ای ڈی کی ٹیم ستیندر جین سے پوچھ گچھ کے لیے تہاڑ جیل پہنچی

    0
    رتک روشن اور سیف علی خان کی فلم ’وکرم-ویدھا‘ تاریخ رقم کرنے کے لیے تیار، 100 ممالک میں ہوگی ریلیز

    رتک روشن اور سیف علی خان کی فلم ’وکرم-ویدھا‘ تاریخ رقم کرنے کے لیے تیار، 100 ممالک میں ہوگی ریلیز

    0
    انگلینڈ میں بلے بازوں کے لیے قہر بنے ہوئے ہیں محمد سراج، پھر ٹی-20 عالمی کپ کے لیے ہندوستانی ٹیم میں جگہ کیوں نہیں!

    انگلینڈ میں بلے بازوں کے لیے قہر بنے ہوئے ہیں محمد سراج، پھر ٹی-20 عالمی کپ کے لیے ہندوستانی ٹیم میں جگہ کیوں نہیں!

    0
    مچل اسٹراک سب سے زیادہ وکٹ لینے والے بائیں ہاتھ کے تیز بالر بنے

    مچل اسٹراک سب سے زیادہ وکٹ لینے والے بائیں ہاتھ کے تیز بالر بنے

    دسمبر 5, 2025
    کوکو گوف، سبالنکا اور شویٹک نے کمائی میں تمام خاتون ایتھلیٹس کو پیچھے چھوڑا

    کوکو گوف، سبالنکا اور شویٹک نے کمائی میں تمام خاتون ایتھلیٹس کو پیچھے چھوڑا

    دسمبر 5, 2025
    شائی ہوپ کی سنچری اور جسٹن گریوز کی نصف سنچری نے ویسٹ انڈیز کی اننگز کو سنبھالا

    شائی ہوپ کی سنچری اور جسٹن گریوز کی نصف سنچری نے ویسٹ انڈیز کی اننگز کو سنبھالا

    دسمبر 5, 2025
    غزہ منصوبے کا اگلا مرحلہ جلد شروع ہونے والا ہے: ڈونلڈ ٹرمپ

    غزہ منصوبے کا اگلا مرحلہ جلد شروع ہونے والا ہے: ڈونلڈ ٹرمپ

    دسمبر 5, 2025
    مچل اسٹراک سب سے زیادہ وکٹ لینے والے بائیں ہاتھ کے تیز بالر بنے

    مچل اسٹراک سب سے زیادہ وکٹ لینے والے بائیں ہاتھ کے تیز بالر بنے

    دسمبر 5, 2025
    کوکو گوف، سبالنکا اور شویٹک نے کمائی میں تمام خاتون ایتھلیٹس کو پیچھے چھوڑا

    کوکو گوف، سبالنکا اور شویٹک نے کمائی میں تمام خاتون ایتھلیٹس کو پیچھے چھوڑا

    دسمبر 5, 2025
    • Home
    • قومی خبریں
    • ریاستی خبریں
    • عالمی خبریں
    • اداریہ ؍مضامین
    • ادبی سرگرمیاں
    • کھیل کھلاڑی
    • فلم
    • ویڈیوز
    • Epaper
    • Terms and Conditions
    • Privacy Policy
    • Grievance
    Hamara Samaj

    © Copyright Hamara Samaj. All rights reserved.

    No Result
    View All Result
    • Home
    • قومی خبریں
    • ریاستی خبریں
    • عالمی خبریں
    • اداریہ ؍مضامین
    • ادبی سرگرمیاں
    • کھیل کھلاڑی
    • فلم
    • ویڈیوز
    • Epaper
    • Terms and Conditions
    • Privacy Policy
    • Grievance

    © Copyright Hamara Samaj. All rights reserved.

    Welcome Back!

    Login to your account below

    Forgotten Password?

    Retrieve your password

    Please enter your username or email address to reset your password.

    Log In

    Add New Playlist